پاکستان میں ذیابیطس اب صرف بڑوں کی بیماری نہیں رہی، 10 سے 18 سال کے بچے تیزی سے اس مرض کا شکار ہو رہے ہیں۔ ماہرین صحت خبردار کر رہے ہیں کہ ہر 2 لاکھ میں سے ایک بچہ ذیابیطس میں مبتلا ہو رہا ہے، اور تشویشناک بات یہ ہے کہ اکثریت کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے بچے اس خاموش بیماری کا شکار ہو چکے ہیں۔
دی ڈائبیٹیز سینٹر اسلام آباد کے چیئرمین ڈاکٹر اسجد حمید کے مطابق بچوں میں 90 فیصد کیسز ٹائپ 2 ذیابیطس کے ہوتے ہیں جبکہ 10 فیصد بچے ٹائپ 1 کا شکار ہوتے ہیں۔ ٹائپ 1 ذیابیطس ایک آٹو امیون بیماری ہے جس کا علاج ساری زندگی انسولین سے ممکن ہوتا ہے، جبکہ ٹائپ 2 کا تعلق غیر صحت مند طرزِ زندگی، موٹاپے اور خاندانی تاریخ سے جوڑا جاتا ہے۔

ماہر ذیابیطس ڈاکٹر نزہت حمید کا کہنا ہے کہ بچوں میں ذیابیطس کی علامات ابتدا میں فلو یا تھکن کی طرح محسوس ہوتی ہیں جیسے بار بار پیشاب آنا، وزن کا اچانک کم ہونا، بھوک یا پیاس کا بڑھ جانا، اور چڑچڑا پن۔ والدین اور بعض اوقات ڈاکٹرز بھی ان علامات کو نظرانداز کر دیتے ہیں، جس سے تشخیص میں تاخیر اور پیچیدگیوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
مزید پڑھیں: تنہائی اور سماجی دوری ذیابیطس ٹائپ 2 کے خطرے کو بڑھا سکتی ہے، نئی تحقیق
ماہرین کے مطابق پاکستان میں بچوں میں ذیابیطس بڑھنے کی ایک بڑی وجہ جسمانی سرگرمیوں میں کمی، غیر متوازن خوراک، میٹھے مشروبات اور پراسیسڈ کھانوں کا زیادہ استعمال ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کے وزن، خوراک اور سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور علامات ظاہر ہونے پر فوری طور پر شوگر کا ٹیسٹ کروائیں۔

ڈاکٹرز نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان میں آئندہ چند برس میں بچوں میں ذیابیطس کی شرح عالمی سطح پر ایک سنگین صحت بحران میں بدل سکتی ہے۔
بچوں میں ٹائپ 1 ذیابیطس کیا ہے؟
ٹائپ 1 ذیابیطس ایک آٹو امیون بیماری ہے جس میں جسم کا مدافعتی نظام لبلبے کے اُن خلیات پر حملہ کرتا ہے جو انسولین بناتے ہیں۔ انسولین وہ ہارمون ہے جو خون میں موجود شوگر (گلوکوز) کو جسم کے خلیوں تک پہنچاتا ہے تاکہ وہ توانائی کے طور پر استعمال ہو سکے۔ جب انسولین نہ بنے یا کم ہو جائے تو گلوکوز خون میں جمع ہونے لگتا ہے، جس سے ہائی بلڈ شوگر کی حالت پیدا ہوتی ہے۔
یہ صورتحال اگر جاری رہے تو یہ آنکھوں، گردوں، اعصاب اور دل کو نقصان پہنچا سکتی ہے، اور شدید تھکاوٹ جیسی علامات پیدا ہو سکتی ہیں۔ ٹائپ 1 ذیابیطس عام طور پر بچوں میں زیادہ پائی جاتی ہے اور یہ زندگی بھر کا مرض بن سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: ذیابیطس کے شکار بچوں کی زندگی 4 گنا کیسے بڑھ سکتی ہے؟
ٹائپ 1 ذیابیطس کی علامات
یہ مرض عموماً اچانک ظاہر ہوتا ہے اور کئی بار فلو جیسی علامات میں چھپ جاتا ہے۔ عام علامات میں شامل ہیں:
* خون یا پیشاب میں گلوکوز کی بلند سطح
* حد سے زیادہ پیاس
* پانی کی کمی
* بار بار پیشاب آنا (چھوٹے بچوں میں بار بار ڈائپر تبدیل کرنا پڑ سکتا ہے)
* متلی، قے، اور پیٹ درد
* شدید کمزوری اور تھکاوٹ
* چڑچڑاپن اور موڈ میں تبدیلی
* بار بار پیشاب سے جلد پر ریشز
* سانس پھولنا
* شدید بھوک لگنا مگر وزن کا تیزی سے کم ہونا
* دھندلا نظر آنا
* لڑکیوں میں پیشاب کے انفیکشن

مزید پڑھیں: وزن کم کرنے کی نئی دوا ٹائپ 2 ذیابیطس کے مریضوں کے لیے امید کی کرن
ڈاکٹرز مشورہ دیتے ہیں کہ ان علامات کو سنجیدہ لیں اور فوری طور پر شوگر ٹیسٹ کروائیں، کیونکہ بروقت تشخیص ہی بہتر زندگی کی ضمانت ہے۔
علاج کے لیے کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے؟
ٹائپ 1 ذیابیطس کا علاج روزانہ انسولین کے انجیکشن یا انسولین پمپ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ کس بچے کو کون سا طریقہ اپنانا ہے، اس کا فیصلہ معالج کرتے ہیں۔ تاہم درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا ازحد ضروری ہے۔
* خوراک کا خاص دھیان رکھیں، کاربوہائیڈریٹس محدود کریں
* کھانے کے اوقات متعین کریں
* باقاعدگی سے ورزش کو معمول بنائیں
* روزانہ بلڈ شوگر لیول چیک کریں
* وقتاً فوقتاً پیشاب میں کیٹون لیول کی جانچ کریں
بچوں میں ٹائپ 2 ذیابیطس کیا ہے؟
ٹائپ 2 ذیابیطس ایک میٹابولک ڈس آرڈر ہے جس میں جسم یا تو انسولین کم بناتا ہے یا بنائی گئی انسولین کو مؤثر طریقے سے استعمال نہیں کر پاتا۔ بچوں میں اس کی اہم وجوہات میں موٹاپا، خاندانی جینیات اور جسمانی سرگرمیوں کی کمی شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: کون سی عام غذائیں ٹائپ 2 ذیابیطس کا باعث بن سکتی ہیں؟
ڈاکٹر اسجد حمید کہتے ہیں کہ جب جسم میں شوگر لیول بڑھنے لگتا ہے تو وزن بھی بڑھتا ہے، مگر ایک وقت ایسا آتا ہے جب وزن اچانک تیزی سے گرنے لگتا ہے، اور تب جا کر تشخیص ہوتی ہے کہ بچہ ذیابیطس کا مریض ہے۔
ٹائپ 2 ذیابیطس کی علامات
یہ مرض آہستہ آہستہ بڑھتا ہے، اور اس کی علامات اتنی نمایاں نہیں ہوتیں۔ ممکنہ علامات درج ذیل ہیں:
* وزن میں غیر معمولی کمی یا اضافہ
* بار بار مثانے کا انفیکشن
* ایسے زخم جو دیر سے بھرنے لگیں
* خون یا پیشاب میں گلوکوز کی زیادہ مقدار
* ہاتھوں یا پیروں میں سنسناہٹ یا سُن ہونا
* گردن یا بغل کے آس پاس جلد کا سانولا ہو جانا
ڈاکٹر نزہت حمید کہتی ہیں کہ اکثر والدین ان علامات کو روزمرہ کی چھوٹی باتیں سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں، مثلاً زیادہ پانی پینے کو گرمی کی وجہ سمجھنا، یا زیادہ بھوک لگنے کو مشقت کا نتیجہ سمجھنا۔ یہی لاپرواہی بچوں کو بڑی بیماری کی طرف لے جاتی ہے۔

مزید پڑھیں: خاموش قاتل: ذیابیطس کی تشخیص میں تاخیر خطرناک، ماہرین کا انتباہ
ٹائپ 2 ذیابیطس کا علاج؟
علاج کا انحصار بچے کی عمر، علامات، اور صحت کی عمومی حالت پر ہوتا ہے۔ علاج کا مقصد خون میں گلوکوز کی سطح کو نارمل رینج میں رکھنا ہے۔ ممکنہ طریقہ علاج درج ذیل ہیں:
* متوازن غذا اور وزن میں کمی
* باقاعدہ ورزش
* بلڈ شوگر کی باقاعدگی سے جانچ
* اگر ضرورت ہو تو انسولین یا دیگر ادویات
ٹائپ 2 ذیابیطس کے شکار بچوں کو بعد ازاں دل، گردے، بینائی اور اعصاب سے متعلق مسائل لاحق ہو سکتے ہیں، اس لیے احتیاط اور باقاعدگی سے معائنہ انتہائی ضروری ہے۔














