پاکستان میں معیشت کی خراب صورت حال کے باعث رواں مالی سال کے دوران 5 لاکھ سے زائد افراد کو بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑا۔
رواں مالی سال میں اب تک صنعتی شعبے کی پیداوار میں بڑے پیمانے پر کمی کے باعث ملک بھر میں لاکھوں ملازمتیں ختم ہو چکی ہیں۔
خام مال کی درآمد پر پابندیاں، زرمبادلہ کے بحران، بڑھتی ہوئی لاگت کے باعث بجلی اور گیس کے بڑھتے ہوئے بلوں کی وجہ سے پیداواری سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ کراچی کے 4 صنعتی شعبوں اور ملک بھر میں آٹو وینڈنگ یونٹس میں اسٹیک ہولڈرز نے دعویٰ کیا کہ 5 لاکھ سے زائد افراد کو بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
سندھ حکومت کے ڈائریکٹوریٹ آف مین پاور لیبر ہیومن ریسورس کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ تاجر اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں صنعتی شعبے میں بے روزگاری 15 سے 20 فیصد کے درمیان ہے۔
انہوں نے روزگار کے بحران کو مختلف وجوہات کی وجہ قرار دیا جس میں زرمبادلہ کے مسائل بھی شامل ہیں۔
ایک تجزیہ کار نے جب سندھ حکومت کے محکمہ شماریات سے منصوبہ بندی اور ترقی کے حوالے سے رپورٹ دینے والے سے صنعتوں میں بے روزگاری کے بارے میں تبصرہ کرنے کے لیے رابطہ کیا تو انہوں نے فروری کے ماہانہ صنعتی پیداوار اور روزگار سروے (ایم آئی پی ای) کو چیک کرنے کی تجویز دی۔
سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری (ایس اے آئی) کے صدر ریاض الدین نے کہا کہ خاص طور پر اکتوبر 2022 سے اب تک فوڈ سیکٹر کو چھوڑ کر سائٹ کے علاقے میں 5 لاکھ میں سے تقربیاً ایک لاکھ افراد نے مختلف زمروں کی صنعتوں میں اپنا ذریعہ معاش کھو دیا۔
انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے دوران صنعتی سرگرمیوں میں 30 سے 40 فیصد کمی آئی ہے اور کچھ صنعتیں یا تو بند ہیں یا اپنی ایک شفٹ معطل کر چکی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں 19.99 روپے بجلی اور 9 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو گیس ٹیرف واپس لینے کے بعد مزید 50 فیصد صنعتیں بند ہو جائیں گی۔
ریاض الدین نے کہا کہ وفاقی حکومت کے محکمے جیسے سندھ بیورو آف شماریات (ایس بی ایس) اور سندھ حکومت کے مختلف محکمے جولائی 2022 سے صنعتوں سے بے روزگاری کے اعداد و شمار حاصل کرنے میں سرگرم ہوگئے ہیں۔
کاروباری افراد ان محکموں کی طرف سے کسی بھی طرح کی ہراسانی کے خوف سے ملازمت کے نقصان کے اعداد و شمار فراہم کرنے سے ہچکچا رہے ہیں جبکہ لسٹڈ کمپنیاں ہر ماہ اپنے کارکنوں کا ڈیٹا پیش کر سکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کے مختلف محکمے صنعتی سرگرمیوں کی بحالی تک ٹیکسوں اور لیویز کی وصولی کے اپنے اہداف کو موخر کریں۔