ارطغرل ثانی کا کھیل/ پہلا حصہ

جمعرات 17 جولائی 2025
author image

رعایت اللہ فاروقی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

حق تعالی ہمیں معاف فرمائے کہ آج صالحین اور خوش فہم پٹواریوں کے خلیفہ حضرت ارطغرل ثانی یعنی طیب اردگان حفظہ اللہ کا کھیل واضح کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مگر مشکل یہ ہے کہ  اس کا تو پس منظر ہی صدیوں پر محیط ہے  اور ہم نے لکھنا کالم ہے، کتاب نہیں۔ سو سمجھانے کے لیے موضوع کو 3 کڑیوں میں بانٹنا پڑے گا اور کوشش ہوگی کہ حوالے کم سے کم رکھ کر 2 حصوں پر مشتمل کالم میں بات پوری کرلی جائے۔ آیئے پہلی کڑی کی جانب۔

عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ ترک قوم بس وہی ہے جو موجودہ ترکی میں آباد ہے، مگر ایسا ہے نہیں۔ ترک بنیادی طور پر وہ خانہ بدوش قبائل تھے جو منگولیا، قازقستان، ترکمانستان اور سنکیانک کے علاقوں میں زیر گردش تھے۔ زیر گردش ہم انہیں خانہ بدوشی کی نسبت سے ہی کہہ رہے ہیں۔ ان کے ذیلی قبائل کی تقسیم خاصی وسیع ہے جس میں جانے سے ہم گریز کریں گے۔ سمجھنے والی بات یہ ہے کہ ان کی پہلی تقسیم 2 قبیلوں میں ہے۔ ایک اوغوز اور دوسرا قبچاق قبیلہ۔ ترکی نام کا ملک ان  اوغوز قبائل پر  مشتمل ہے جو قرون وسطی میں مغرب کی طرف گئے تو  پہلے سلجوق پھر عثمانی سلطنت کے بانی بنے۔ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ عثمانی ترکوں نے جب زور پکڑا تو انہوں نے مشرق وسطی اور افریقہ کی سمت پیش قدمی کرتے ہوئے اپنی سلطنت کو اس جانب تو وسعت دی، مگر پلٹ کر اپنے آبائی علاقوں کی جانب آنے کا تکلف گوارا نہیں کیا۔ یعنی یہ جہاں سے نکلے تھے اسے فراموش کر گئے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی دفاع اور منی لانڈرنگ

آج کی تاریخ میں وسطی ایشیا میں 5 ترکی النسل ریاستیں پائی جاتی ہیں جو ترکمانستان، ازبکستان، قازقستان، آذربائجان اور کرغیزستان ہیں۔ اگر موجودہ ترکی کے ساتھ انہیں جوڑ لیا جائے تو ان 6 ممالک کا مجموعی رقبہ 48 لاکھ مربع کلومیٹر بنے گا۔ جبکہ مجموعی آبادی 16 کروڑ 20 لاکھ ہوگی۔ جس میں سے نصف صرف ترکی میں ہوگی۔ وسطی ایشیا والی 5 ترکی النسل ریاستوں کو باقاعدہ ریاستی شکلیں سوویت دور میں حاصل ہوئیں۔اس سے قبل یہ علاقے  روس،خوارزمی ، اور تیموری سلطنتوں کا حصہ رہے۔ان 5 ممالک کے علاوہ ترک نسل کے لوگ روس، تاجکستان، افغانستان، پاکستان اور چین میں بھی نمایاں تعداد میں پائے جاتے ہیں۔

سوویت زوال کے بعد جب یہ ریاستیں آزاد ہوئیں تو ترکی نے روایتی طور پر 1992ء میں انہیں بطور ریاست تسلیم کرلیا۔ لیکن کوئی جذباتی پیش رفت نہ کی۔ البتہ جب حضرت ارطغرل ثانی حفظہ اللہ نے 21ویں صدی کے آغاز پر ترک اقتدار میں ظہور فرمایا تو شروع میں تو انہوں نے یورپی یونین والی ٹرک کی بتی کا تعاقب فرمایا لیکن مایوس ہونے کے بعد انہوں نے ’عظیم ترک سلطنت‘ کا خواب دیکھنا شروع کردیا۔ اور اس کے لیے 600 سال میں پہلی بار کسی ترک کو یاد آیا کہ ہمارے کچھ ’خونی رشتیدار‘ تو وسطی ایشیا اور چین میں بھی رہتے ہیں۔  خواب بہت بڑا تھا سو اس کے لیے ماحول بنانا بہت ضروری تھا۔ چنانچہ حضرت ارطغرل ثانی حفظہ اللہ نے ابتدائی طور پر بس اتنا قدم اٹھایا کہ 2009ء میں 5 میں سے 3 ترکی النسل ریاستوں کرغیزستان، قازقستان اور آذربائجان کو ساتھ ملا کر ایک ’ترک کونسل‘ قائم فرمادی۔  جس کا پہلا باضابطہ اجلاس 2011ء میں قازقستان میں ہوا۔

اس اجلاس کے بعد اب مرحلہ تھا ماحول بنانے کا۔ ماحول بنانے میں تو ان کے آباء و اجداد کی مہارت کا یہ عالم تھا کہ سیاست کے لیے مذہب کے استعمال کو آرٹ کی شکل عثمانی سلطنت نے ہی دی تھی۔ جہاں ’شیخ الاسلام‘ نام کا ایک باقاعدہ منصب تشکیل دے کر مذہب کو عثمانی تحویل میں لے لیا گیا تھا اور دنیا جہاں کی بدعات کی بنیاد ڈال دی گئی تھی۔ جو عثمانی شیخ الاسلام کہتا وہی مذہبی حکم ہوتا اور یقین جانیے کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ عثمانی سلطان کو کسی شیخ الاسلام کی کھال میں بھس بھرنی پڑی ہو۔ بڑے ہی وفادار شیخ الاسلام ہوا کرتے تھے۔ اپنے بادشاہ کو پورے یقین کے ساتھ ظل اللہ فی الارض سمجھا کرتے تھے۔ البتہ تھوڑی شامت تب آجایا کرتی جب اقتدار ایک کے بعد دوسری نسل کو منتقل ہوتا۔ تب نیا سلطان بسا اوقات ابا حضور والے شیخ الاسلام کو کسی تاریک کوٹھری میں مراقبے پر بٹھا دیا کرتا۔ جہاں وہ پورے اخلاص کے ساتھ یاد الہی میں مشغول ہوجاتا۔ سنا ہے ایسے ماحول میں اللہ کی طرف رجوع میں کامل یکسوئی نصیب ہوتی ہے۔

حضرت ارطغرل ثانی کا ظہور جدید دور میں ہوا تھا سو ماحول بنانے کے تقاضے بھی نئے تھے۔ ڈرامہ ڈائریکٹروں کو حکم دیا گیا کہ  بھئی بناؤ ارطغرل اور عثمان نامی ڈرامے۔ تاکہ مسلم دنیا کے احمقانِ عالم کو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا خواب بیچا جاسکے۔ عربوں نے پچھلے عثمانی اچھی طرح بھگت رکھے تھے سو انہوں نے تو اپنے ممالک میں ان ڈراموں کو نہ آنے دیا۔ لیکن پاکستان میں عمران خان اور صالحین سچ مچ میں ارطغرل نامی ڈرامے کے دیوانے ہوگئے۔ جانتے ہیں عمران خان کو ارطغرل میں اتنی دلچسپی کیوں تھی کہ پی ٹی وی سے ہی آن ایئر کروادیا ؟ کیونکہ عمران خان کی اماں جان مرحومہ شوکت خانم برکی قبیلے سے تھیں جو پاکستان میں پایا جانے والا ترک قبیلہ ہے۔ امید ہے اب آپ کو یہ بھی سمجھ آگیا ہوگا کہ حضرت ارطغرل ثانی یعنی طیب اردگان حفظہ اللہ اور عمران خان اچار ’ترک نیشنلزم‘ کا بانٹ رہے تھے مگر صالحین پروپیگنڈا یہ کر رہے تھے کہ یہ تو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی طرف پیش رفت ہے۔ 2019ء تک ترکمانستان اور ازبکستان بھی ترک کونسل کے ممبر بن گئے مگر ان ممالک نے حضرت ارطغرل ثانی حفظہ اللہ کے خواب میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی۔ چنانچہ دلچسپی پیدا کرنے کے لیے حضرت ارطغرل ثانی حفظہ اللہ نے سنہ 2021 میں اس انجمن ترکاں کا نام ترک کونسل سے تبدیل کرکے ’ترک ریاستوں کی تنظیم‘ رکھ دیا۔ اور ایک مشترکہ فنڈ کا خیال بھی پیش کیا۔ مگر ’فنڈ‘ کا چارہ بھی آذربائیجان کے سوا کسی کے قلب میں حرارت پیدا نہ کرسکا۔ اسی عرصے میں ایک ڈھکوسلا یہ بھی پھیلایا گیا کہ 2023ء میں مغربی پابندیوں کے سو سال پورے ہوتے ہی خلافت عثمانیہ قائم ہوجائے گی؟ ہوئی کیا؟

مزید پڑھیے: ’غلامی آج بھی موجود ہے‘

ہم جان بوجھ کر یہاں خاصی تشنگی چھوڑ کر آپ کو سیدھا قرون وسطیٰ میں لے کر جا رہے ہیں۔ اور بات کرنے لگے ہیں زیر نظر کالم کی دوسری کڑی کی۔ یقین جانیے، تیسری یعنی آخری کڑی تک پہنچ کر یہ تشنگی باقی نہ رہے گی۔ قرون اولی میں  مسلم سلطنت جب عراق، شام اور بیت المقدس وغیرہ کے علاقے بھی اپنی آغوش میں لے چکی تو یہاں یہودی بھی نمایاں تعداد میں موجود تھے۔ اگلی 2،3 صدیوں میں یہ سرکاری خدمات میں بھی نمایاں طور پر سرگرم نظر آنا شروع ہوئے مگر معاملہ تھا محدود حد تک ہی۔ لیکن جب اسپین فتح ہوا تو اب مسلم سلطنت اس یورپ میں قدم رکھ چکی تھی جہاں یہودی بڑی تعداد میں آباد تھے۔ صرف اسپین میں میں ہی ان کی تعداد 2 ڈھائی لاکھ تھی۔

مسلم فاتحین اور اسپین کے یہودیوں دونوں کی خوش قسمتی رہی کہ یہ یہودی کرسچن دور میں بہت معتوب چلے آئے تھے۔ اور اس دور کے مسلمانوں کا رویہ یہ  تھا کہ کسی بھی مفتوحہ علاقے کے لوگوں سے سلوک اعلیٰ رکھتے تھے۔ نتیجہ یہ کہ اسپین کے یہودیوں نے جلد ہی مسلم فاتحین کو باقاعدہ طور  پر’نجات دہندہ‘ کا رتبہ دیدیا اور جی جان سے انہیں خوش رکھنے لگے۔ جانتے ہیں ناں یہودیوں کا لیجنڈری بزنس ’سود‘ یعنی بینکنگ  ہے؟ سو اسپین کے یہودیوں کے پاس بھی مال بہت تھا۔ یوں آنے والے سالوں میں سپین کے حکمرانوں نے ان یہودیوں کو دربار کیا حکمرانی میں بھی بہت حد تک شامل کرلیا۔ جلد ہی یہ مسلم سپین میں سیاسی مشیر، مالیاتی مشیر، شاہی طبیب تھے اور سب سے بڑھ کر سفارتکاری کے شعبے میں پیش پیش تھے۔

جب اسپین سے مسلم سلطنت کا خاتمہ ہوا تو کرسچن فاتحین نے جو سلوک وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ کیا، عین وہی سلوک یہودیوں کے ساتھ بھی کیا۔ یعنی ان میں سے بھی بہت سے قتل ہوئے، باقی ماندہ کو 2 آپشنز دی گئیں کہ یا تو ملک چھوڑو یا پھر عیسائیت قبول کرو۔ چنانچہ یہودی اکثریت نے بھی ہجرت کو ترجیح دی۔ یہ وہ دور تھا جب ترکی میں عثمانی سلطنت قائم بھی ہوچکی تھی اور مستحکم بھی ہو رہی تھی۔ دور حکومت تھا سلطان بایزید دوم کا۔ اس نے فوری طور پر بحری بیڑے بھیج کر ان یہودیوں کو اسپین سے اپنی سلطنت منتقل کروا دیا۔ یہودیوں سے اس محبت کی وجہ کیا تھی؟ اس کا جواب بایزید دوم کے اس جملے میں ملتا ہے

’اسپین کے حکمران احمق ہیں، انہوں نے اسپین کو غریب کردیا اور ہم نے اپنی سلطنت کو امیر کردیا‘۔

مزید پڑھیں: دشمن ایک تو دفاع بھی ایک

اب یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ماڈرن ورلڈ کا تو سارا بینکنگ سسٹم یہودیوں کے کنٹرول میں ہے  اور ہر امریکی حکمران بایزید دوم کی طرح ہی ان کی بڑی قدر کرتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکی صدور بھی بایزید دوم کی سطح کی ہی عقل مندی دکھاتے آرہے ہیں۔ (جاری ہے)

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

لاہور میں ہیوی وہیکلز ڈرائیونگ ٹریننگ اسکول کا قیام، وزیر اعلیٰ پنجاب کا محفوظ سفر یقینی بنانے کا وژن

ملک کے شمال مشرق میں زلزلے کے جھٹکے، لوگ گھروں سے باہر نکل آئے

ڈیرہ اسماعیل خان: داناسر میں المناک ٹریفک حادثہ، ایک ہی خاندان کے 11 افراد جاں بحق

ایشیا کپ، 41 سال بعد پاک-بھارت فائنل ہونے کو تیار، ٹورنامنٹ فائنلز میں پاکستان کا پلڑا بھاری

پی ٹی سی ایل گروپ اور مرکنٹائل نے پاکستان میں آئی فون 17 کی لانچ کا اعلان کردیا

ویڈیو

’میڈن اِن پاکستان‘: 100 پاکستانی کمپنیوں نے بنگلہ دیشی مارکیٹ میں قدم جمالیے

پولیو سے متاثرہ شہاب الدین کی تیار کردہ الیکٹرک شٹلز چینی سواریوں سے 3 گنا سستی

وائٹ ہاؤس: وزیراعظم اور امریکی صدر کے درمیان اہم ملاقات ختم، فیلڈ مارشل عاصم منیر بھی شریک تھے

کالم / تجزیہ

بگرام کا ٹرکٖ

مریم نواز یا علی امین گنڈا پور

پاکستان کی بڑی آبادی کو چھوٹی سوچ کے ساتھ ترقی نہیں دی جا سکتی