اسٹریمنگ کی دنیا کے بڑے نام نیٹ فلکس نے پہلی بار اپنے کسی اصل ٹی وی شو میں جنریٹیو مصنوعی ذہانت کے ذریعے تیار کردہ ویژول ایفیکٹس استعمال کیے ہیں جس کا مقصد وقت اور پیسہ بچانا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مصنوعی ذہانت اور ملازمتوں کا مستقبل: خطرہ، تبدیلی یا موقع؟
یہ تجربہ ارجنٹائن کے سائنسی فکشن ڈرامے ‘The Eternauts’ میں کیا گیا جہاں ایک عمارت کے گرنے کا منظر اے آئی کی مدد سے تیار کیا گیا۔
نیٹ فلکس کے شریک سی ای او ٹیڈ سیرنڈوس نے تصدیق کی کہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے وہ منظر روایتی طریقوں کے مقابلے میں 10 گنا تیز اور سستا تیار ہوا۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہ منظر روایتی ویژول ایفیکٹس کے ذریعے بنایا جاتا تو اس شو کے بجٹ میں ممکن ہی نہ ہوتا۔
کم لاگت، زیادہ منافع
مصنوعی ذہانت کے استعمال سے صرف پیداواری لاگت کم نہیں ہوئی بلکہ نیٹ فلکس کی مالی کارکردگی بھی بہتر رہی اور اس کا ریونیو 16 فیصد بڑھ کر 11 ارب ڈالر تک پہنچ گیا جبکہ منافع 2.1 ارب سے بڑھ کر 3.1 ارب ڈالر ہوا۔
اے آئی کا استعمال متنازع
فلمی دنیا میں اے آئی کا استعمال ایک متنازع مسئلہ بن چکا ہے۔ سنہ 2023 میں ہالی ووڈ میں فنکاروں کی یونین (SAG-AFTRA) نے اے آئی کے بےقابو استعمال پر تشویش ظاہر کی۔
مشہور فلم ساز ٹائلر پیری نے 800 ملین ڈالر کے اسٹوڈیو توسیعی منصوبے کو روک دیا کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ اے آئی فلم انڈسٹری میں روزگار کو خطرے میں ڈال دے گی۔ بعض فنکار اے آئی کو ’تخلیقی فن کی توہین‘ بھی قرار دیتے ہیں۔
تخلیق کا نیا دور یا فنکاروں کا زوال؟
سنگاپور کی اینی میشن کمپنی CraveFX کے شریک بانی ڈیوئیر یُون کے مطابق یہ صرف وقت کی بات تھی، اب چھوٹے اسٹوڈیوز بھی بڑے بجٹ جیسے مناظر تیار کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آخرکار فیصلہ فنکار کا ہوتا ہے نہ کہ AI کا۔
مزید پڑھیے: کیا مصنوعی ذہانت انسانوں کی طرح فریب دے سکتی ہے؟
انہوں نے کہا کہ اے آئی صرف ایک ٹول ہے جس سے ویژول ایفیکٹس ٹیمیں بہتر نتائج حاصل کر سکتی ہیں بشرطیکہ اسے سپورٹنگ کردار میں رکھا جائے نہ کہ مرکزی تخلیق کار کے طور پر۔
کیااے آئی واقعی ایک انقلاب ہے؟
نیٹ فلکس کا اقدام ظاہر کرتا ہے کہ اب بڑے ادارے اے آئی کو نہ صرف قبول کر رہے ہیں بلکہ اسے پیداواری عمل کا حصہ بھی بنا رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ صرف بجٹ بچانے کا طریقہ ہے یا تخلیقی میدان میں انسانی فنکاروں کی جگہ لینے کی کوشش ہے۔
نیٹ فلکس کی طرف سے مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ مناظر کی شروعات یقیناً ایک سنگ میل ہے لیکن یہ فلمی دنیا کے لیے ایک نیا چیلنج بھی ہے۔
مزید پڑھیں: مصنوعی ذہانت خطرہ یا ٹیکنالوجی کا انقلاب، اقوام عالم اسے ریگولیٹ کیوں کرنا چاہتی ہیں؟
فلمی ماہرین کا خیال ہے کہ اگرچہ اےا ٓئی چھوٹے بجٹ والے پروجیکٹس کو نئی بلندیوں پر لے جا سکتی ہے مگر یہ بھی ضروری ہے کہ فنکاروں کے حقوق، تخلیقی آزادی اور روزگار کے تحفظ کو نظرانداز نہ کیا جائے۔