نیکی کا کوئی عمل معمولی نہیں

ہفتہ 19 جولائی 2025
author image

عامر خاکوانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بعض اوقات بہت مختصر سی نصیحت بھی سیدھی دل میں اترجاتی ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ کوئی طویل موٹیویشنل تقریر سنیں یا کتاب پڑھیں، کہیں پر کسی کی لکھی ہوئی دو سطریں بھی وہی جادو دکھا سکتی ہے۔

  یہ دو سطری میسج تھا، ’پھل، سبزی یا دیگر چھوٹا موٹا سامان کسی ضعیف العمر ریڈھی والے یا فٹ پاتھ پر سامان بیچنے والے سے خرید لیا کریں کیونکہ یہ امیر ہونے کے لیے نہیں، بلکہ اپنے اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے محنت مزدوری کر رہے ہیں‘۔

بظاہر عام سی بات ہے، بے شمار مرتبہ پڑھی ہوگی، اس پر غور کیا تو اندازہ ہوا کہ کیسا خوبصورت سبق اس میں پوشیدہ ہے۔  بے اختیار ذہن میں چند سال پہلے کا ایک واقعہ گھوم گیا۔ ہمارے ایک صحافی دوست لاہور میں مغلپورہ کے علاقہ میں رہتے ہیں۔ میں بھی ایک زمانے میں وہاں سے ڈیڑھ 2 کلومیٹر کے فاصلے پر رہتا رہا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: ماؤس ٹریپ

ایک دن انہی صحافی دوست نے ایک قصہ سنایا۔ کہنے لگے، ’مغلپورہ چوک کے قریب بازار میں ایک معروف اسٹور ہے۔ وہاں گھر کا سامان لینے اکثر جانا ہوتا تھا۔ راستے میں ایک دکان کے تھڑے پر ایک بابا جی نے چھولے چاول کا ٹھیہ یا خوانچہ سا لگایا ہوا تھا۔ صفائی کا معقول انتظام تھا۔ ایک دو بار رک کر کھایا تو حیران رہ گیا۔ میں نے لاہور جیسے شہر میں کم ہی اتنی لذت والے چنے چاول یا دال چاول کھائے ہوں گے۔ بڑے بڑے نام ہیں، جہاں کا پکوان صر ف پھیکا بلکہ بہت ہی پھیکا‘۔

’ایک دن میں صبح گھر سے جلدی نکل آیا، وقت تھا، کچھ دیر باباجی کے پاس بیٹھ گیا، گپ شپ کرتا رہا۔ان کی عمر 70 برس کے قریب ہوگی، معلوم ہوا کہ بیٹا کوئی نہیں، صرف بچیاں ہیں، شادیاں کر دیں، مگر ایک کی طلاق ہوگئی تو وہ بچوں سمیت گھر آگئی۔ حالات ایسے تھے کہ باباجی کے چاول چنوں ہی پر پورے گھر کا دارومدار تھا۔ کہنے لگے کہ اتوار کو تو بازار بند ہوتے ہیں، چھٹی ہوتی ہی ہے، کسی اور روز اگرہڑتال وغیرہ ہوجائے تو گھر میں کھانے کو روٹی نہیں ہوپاتی۔ پھر بتانے لگے کہ ایک اور بڑا مسئلہ ہے کہ بازار میں بیٹھا ہوں، گاہک مستقل قسم کے ہیں، ادھار بھی کر لیتے ہیں، سختی نہیں کر سکتا، نوبت یہ آ جاتی ہے کہ مال (گھی، مسالے، چنے وغیرہ) لینے کے پیسے نہیں ہوتے کہ کئی برسوں سے ایک دائرہ ہی چل رہا ہے، مال بیچا تو انہی پیسوں سے اور مال لے لیا۔ کئی بار کوشش کی کہ کچھ پیسے بچا لیے جائیں تاکہ وافر مقدار میں سامان گھر پڑا ہو، یہ روز کی جھنجھٹ سے جان چھوٹ جائے مگر ہر بار کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے، کبھی نواسہ بیمار، کبھی خود، کبھی کچھ اور’۔

’ان کی باتیں سن کر دل بڑا دکھا۔ایک خیراتی ادارے سے بات کی، انہوں نے کچھ رقم انہیں دلا دی۔ اس کے بعد دو چار بار وہاں سے گزرا، ہر بار بابا جی کو ممنون ہی پایا۔ یہ ان کی مجبوری تھی کہ اس عمر میں بھی روزانہ کام کرنے آنا پڑتا تھا۔ وہ بزرگوار مگر اسی پر بڑے خوش تھے کہ اب میں آسانی کے ساتھ روزانہ کا مال تیار کر لیتا ہوں۔ دو ڈھائی سال پہلے ان کا انتقال ہوگیا، مگر آخری دنوں تک اپنے ہاتھ سے محنت کر کے ہی کماتے رہے۔ ان کے پسماندگان کا بعد میں اتنظام ہوگیا، گھر کی خواتین ہنرمند تھیں، الیکٹرک سلائی مشین ایک جگہ سے مل گئی تو وہ بھی کام سے لگ گئیں‘۔

 یہ واقعہ سن کر سوچتا رہا کہ بسا اوقات ہمیں یہ اندازہ ہی نہیں ہوپاتا کہ چند ہزار سے کسی کی زندگی کس قدر آسان ہوسکتی ہے، کسی اچھے ہوٹل میں دوستوں کا ایک ڈنر پر جتنا خرچ آئے، اس سے کسی خاندان کے پورے مہینے کی مشکل حل ہوجاتی ہے۔

مزید پڑھیے: اداکارہ حمیرا اصغرکی المناک موت کے چند پہلو

  ہمارے ایک بزرگ عزیز اس بات کا بڑا خیال رکھتے۔ ان کے ساتھ بازار جانا ہوتا تو یہ بات نوٹ کرتا کہ وہ سبزی یا پھل وغیرہ ہمیشہ کسی ضعیف العمر ریڑھی والے سے خریدا کرتے۔ اس کے ساتھ مول تول بھی نہ کرتے، منہ مانگی قیمت ادا کرتے اور بسا اوقات ضرورت سے زیادہ سامان خرید لیتے۔ ان دنوں میں طالب علم تھا، ایسا کرنے کی حکمت سمجھ نہیں سکا۔ ایک دن پوچھا کہ آپ نے اس ریڑھی والے سے سبزی لی ہے، حالانکہ اس سے زیادہ اچھی سبزی ساتھ والوں کے پاس رکھی تھی، پھر آلو، پیاز آپ نے اتنے زیادہ کیوں لے لیے، گھر والوں نے تو ایک کلو کا کہا تھا، آپ 5 کلو لے رہے ہیں۔ اس پرانہوں نے مسکرا کر دیکھا اورایک دو فقروں میں بات ختم کر دی کہ زیادہ لینے سے میرا کوئی نقصان نہیں ہوگا، مگر اس بابے کا فائدہ ہوجائے گا، دوسرے جوان اور محنتی لوگ ہیں، گھوم پھر کر سودا بیچ لیں گے، یہ بوڑھا آدمی اسی جگہ کھڑا رہنے پر مجبور ہے، اس کا خیال رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

  کچھ عرصہ بعد ان سے ایک اور بات سیکھی۔ کہنے لگے کہ ہم لوگ مہنگے درزیوں سے اپنے من پسند کپڑے سلواتے ہیں، منہ مانگی قیمت ادا کرتے ہیں، یہی حال اسٹائلش جوتوں، اچھے ہوٹلوں کے کھانوں اور دیگر پر تعیش چیزوں کا ہے۔ ان سب جگہوں پر بغیر کوئی بات کہے بل ادا کر دیتے ہیں، مگر کسی ریڑھی والے سے سبزی، پھل لینا پڑے، بچوں کا کوئی کھلونا خریدنا پڑ جائے تو 5،10 روپے تو کجا، روپیہ دو روپے کی رعایت بھی کراتے ہیں اور اس کے لیے کئی منٹوں تک بحث مباحثے میں الجھے رہتے ہیں، یار اس غریب کو منہ مانگا دے دو یا کچھ اضافی ہی دے دو۔

بعد میں اشفاق احمد صاحب نے اپنے ٹی وی پروگرام زاویہ میں اپنے مرشد بابا جی نور والے کا قصہ سنایا کہ ایک دن ٹانگے والے کو میں نے ٹپ میں 2 روپے دیے تو بابا جی نے فہمائش کی کہ صرف 2 کیوں دیے، 10 دے دیتے، تم نے کون سے اپنی جیب سے دینے تھے؟ رب تعالیٰ کے دتے میں سے دینا ہے تو دل کھول کر دو۔

ایسا ہی ایک تجربہ 4،5 سال پہلے ہوا۔ ایک دوست سے ملنے ان کے دفتر گئے، وہ اصرار کر کے ہمیں قریب واقع چائے خانے میں لے گئے۔ گرمیوں کے دن تھے، چائے کا جی نہیں چاہ رہا تھا، کولڈ ڈرنک پر اکتفا کیا۔ (اس سے پہلے کہ کوئی پڑھنے والا خاکسار کو بلامانگی نصیحت جڑ دے، بتا دوں کہ میں نے ڈائیٹ بوتل پی تھی، وہ بھی غلط ہے، مگر بہرحال کبھی کبھار پی جا سکتی ہے۔) جب بل دینے لگے تو دوست نے 2 بوتلوں کے جتنے پیسے بنتے تھے، خاموشی سے اتنے ہی بطور ٹپ ویٹرلڑکے کو دے دیے۔ کہنے لگے کہ ہم پیشہ ور بھکاریوں کو پیسہ دیتے ہیں اور بھی بہت سی جگہوں پر فضول ضائع ہوجاتے ہیں، مگر یہ جو محنتی لڑکے ہوٹلوں وغیرہ پر کام کر رہے ہیں، ان کو سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی تنخواہیں کم ہیں، اگر ہم 50،100 روپے بھی مدد کر دیں گے تو ہمارا کچھ نہیں جائے گا، ان کے لیے مگر بہتر انتظام ہوجائے گا۔

اسی دوست نے توجہ دلائی کہ اکثر دکانوں یا مارکیٹوں میں گارڈز کھڑے ہوتے ہیں، بیشتر کی یونیفارم خستہ حال ہوتی ہے، عمر بھی 55،60 کے لگ بھگ ہوتی ،مجبوری کے عالم میں وہ 8،10 گھنٹے گرمی ہو یا سردی دکان کے باہر کھڑے جاب کرتے ہیں۔ اگر کچھ  مدد کرنا ہو تو پروفیشنل لوگوں پر اپنی محنت کی کمائی ضائع کرنے کے بجائے ان محنت کش لوگوں کی مدد کرنی چاہیے جو ہاتھ بھی نہیں پھیلا سکتے اور اپنی ہڈیاں گھسا کر بھرم رکھ رہے ہیں۔

اخوت معروف سماجی تنظیم ہے۔ اربوں روپے وہ بلاسود قرضوں کی مد میں دے چکے ہیں۔ اخوت کے سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب کمال کے آدمی ہیں، بڑے ویژن والے۔ انہیں یہ خیال آیا کہ جن لوگوں کو ہم چھوٹے قرضے دیتے ہیں، ان میں سے بیشتر ریڑھی والے یا چھوٹے موٹے کام کرتے ہیں۔ ان لوگوں سے انٹرویوز کیے تو پتہ چلا کہ یہ لوگ بھی روزانہ 10،15 روپے خیرات کر دیتے ہیں، صبح جو مانگنے والا آیا، اسے 10 کا نوٹ تھما دیا یا چند سکے دے دیے۔ اخوت میں اس پر ڈسکشن ہوئی اور پھر ان تمام لوگوں کو جنہوں نے اخوت سے بلاسود چھوٹے قرضے لیے اور ماہانہ بنیاد پر قسطیں ادا کر رہے ہیں، انہیں خوبصورت سے گلک لے دیے اور کہا کہ آپ نے ہر روز جو بھی صدقہ خیرات کرنا ہو، اس گلک میں ڈال دیں۔

اب یہ ہونے لگا کہ ہر مہینے اخوت کے کارکن ان سے ماہانہ قسط لینے جاتے تو وہ گلک بھی دفتر لے آتے، انہیں ایک اور ڈبہ پکڑا دیتے۔ جب حساب کتاب کیا گیا تو  پتا چلا کہ اس طریقے سے لاکھوں روپے جمع ہوگئے۔ جن سے مزید لوگوں کو بلاسود قرضہ دے دیا گیا۔ یوں ان ریڑھی والوں، شوارما چپس بیچنے والوں کو بھی یہ اطمینان اور اعتماد پیدا ہوا کہ ہم صرف لینے والے نہیں بلکہ ہم آگے دے بھی رہے ہیں اور ہمارے کنٹری بیوشن سے مزید ضرورت مندوں کو قرض مل رہے ہیں۔

ایک دوست نے اپنے ایک انکل کا بتایا، وہ کالج میں پروفیسر تھے، لوئر مڈل کلاس فیملی تھی، مناسب سے مالی حالات تھے، مگر وہ اپنی نپی تلی آمدنی میں سے بھی ہزار دو ہزار روپے بچا کر الگ رکھتے اور آس پاس کے گھریلو ملازمین کی مدد کر دیتے۔

مزید پڑھیں: مطالعے کی عادت کیسے ڈالی جائے؟

ان  کا کہنا تھا کہ گھروں میں کام کرنے والی ملازمہ (میڈ) ہو یا ڈرائیور، مالی وغیرہ، یہ کئی گھروں میں کام کر کے بھی بمشکل گزارا کر پاتے ہیں۔ اتنے پیسے ان کے پاس نہیں ہوتے کہ گوشت خرید سکیں یا پھل لیں۔ انہیں مہینے میں ایک آدھ بار کلو ڈیڑھ کلو مرغی کا گوشت خرید کر دے دینا چاہیے۔ 800، 1000 روپے سے ہمارا بجٹ آؤٹ نہیں ہوجائے گا، مگر ان غریبوں کے گھر عید کا سماں ہوجائے گا، بچے گوشت کھائیں گے، پھل کھا کر لطف اٹھائیں گے۔

 یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں، بظاہر معمولی اور کم اہم نظر آنے والی نیکیاں،انہیں اپنی عادت بنا لیجیے، کیاخبر کونسا عمل آدمی کو قدرت کے سامنے سرخرو کر دے، رب تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا سبب بن جائے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp