بہزاد عالم خان سے چند دن پہلے لاہور میں کتابوں کی معروف دکان ریڈنگز پر ملاقات ہوئی تو ‘فسانہ کیفے’ میں چائے کی میز پر کتابوں کے بارے میں گفتگو کا رخ ڈان اخبار کے ہفتہ وار میگزین ‘بکس اینڈ آتھرز’ کی طرف مڑ گیا جس کی بنا ڈالنے والی معروف صحافی زبیدہ مصطفیٰ کا گزشتہ دنوں انتقال ہوا ہے۔ دی نیوز کا گروپ ایڈیٹر مقرر ہونے سے پہلے بہزاد صاحب کی ڈان اخبار سے طویل عرصہ وابستگی رہی اور ‘بکس اینڈ آتھرز’ کے اجرا کے وقت وہ اسی اخبار سے منسلک تھے۔ انہوں نے زبیدہ مصطفیٰ کے سامنے ان کتاب دوست حضرات کے انٹرویوز کی تجویز رکھی جن کے پاس ذاتی کتابوں کا ذخیرہ تھا۔
اس تجویز کی پذیرائی کے بعد بہزاد صاحب نے جن شخصیات کے انٹرویوز کیے ان میں معروف سیاستدان شیر باز خان مزاری بھی شامل تھے۔ بہزاد صاحب نے بتایا کہ کراچی میں نادر کتابوں کے کاروبار سے منسلک صفدر مہدی سے مزاری صاحب نے ایک دفعہ سندھ کی تاریخ کے بارے میں بڑی نایاب کتاب خریدی جس کے حاشیے پر جنرل جان جیکب نے اپنے قلم سے نوٹس لکھے تھے۔ اس کتاب کی خبر اڑتے اڑتے بھٹو صاحب تک پہنچی تو انہوں نے اپنے دوست سے یہ کتاب مانگ لی۔ فرد سے دوستی اپنی جگہ، کتاب سے دوستی اپنی جگہ۔ اس لیے مزاری صاحب نے دوست کو کتاب دینے سے صاف انکار کر دیا جو بھٹو صاحب کو اچھا نہیں لگا۔ یوں ایک کتاب دو دوستوں کے درمیان نزاع کا موجب بنی۔
شیر باز مزاری نے خود نوشت میں اس واقعے کا حوالہ دیا ہے۔ مذکورہ کتاب سے محرومی کو بھٹو کبھی دل سے نہ بھلا سکے اور اس کے بارے میں مزاری صاحب کے سامنے اپنے تاسف کا اظہار کرتے رہے۔ شیر باز مزاری نے نادر کتابوں کے شوق میں اپنے چند حریفوں میں بھٹو کو بھی شمار کیا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کو کتاب دینے سے انکار پر مجھے ممتاز صحافی اور دانشور غازی صلاح الدین صاحب سے سنا ایک واقعہ یاد آیا جس میں سراج میمن نے بھٹو صاحب سے اپنے لیے خریدی ہوئی کتاب رکھ لینے کو کہا تھا۔ یہ سارا قصہ میں نے بہزاد صاحب کو سنایا اور ان سے ذکر کیا کہ میں نے اسے بھٹو اور کتابوں کے تعلق سے اپنے مضمون میں نقل کیا تھا۔
تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ غازی صاحب سے اڑھائی سال پہلے حکمرانوں کے شوقِ مطالعہ پر بات چیت ہوئی تو اس موقع پر ذوالفقار علی بھٹو کے مطالعے سے گہرے شغف کا تذکرہ چھڑ گیا جو پاکستان کے غالباً سب سے وسیع المطالعہ حکمران ہیں۔ ان کی کتاب سے دلچسپی کی ایک کہانی غازی صاحب نے ہمیں سنائی جو ان دنوں ان کے علم میں آئی جب وہ ’جیو کتاب‘ کے نام سے ٹی وی پروگرام کرتے تھے۔
ایک پروگرام میں انہیں سندھی اور انگریزی کے اسکالر سراج الحق میمن سے ہم کلام ہونے کا موقع ملا۔ وہ بھٹو دور میں سندھی اخبار کے ایڈیٹر رہے۔ کسی یورپی ملک کے دورے میں وہ وزیراعظم کے وفد میں شامل تھے۔ ایک دن مصروفیات سے وقت چُرا کر شہر میں کتابوں کی دکان کا رخ کیا۔
ادھر ایک کتاب خرید رہے تھے تو اس اثنا میں بھٹو بھی وہاں آن پہنچے۔ سراج الحق میمن نے اپنے لیے جو کتاب پسند کی، بھٹو نے اسے اپنے لیے خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی لیکن معلوم ہوا کہ سٹاک میں بس ایک ہی کاپی تھی۔ سراج الحق میمن نے بھٹو سے بہتیرا کہا کہ وہ تحفتاً ان کی خرید کردہ کتاب رکھ لیں لیکن وہ نہیں مانے۔ وطن واپسی کے لیے طیارے نے اڑان بھری تو بھٹو، سراج الحق میمن کی سیٹ پر آئے اور ان سے مذکورہ کتاب پڑھنے کے لیے طلب کی۔
سات، 8 گھنٹے کا سفر تمام ہونے پر انہوں نے کتاب لوٹائی تو کئی جگہ حاشیے پر ان کی رائے درج تھی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ انہوں نے کتاب پڑھ لی ہے۔ غازی صلاح الدین نے بتایا کہ جہاز میں جو کتاب ذوالفقار علی بھٹو کے زیرِ مطالعہ رہی وہ نراد سی چودھری کی ’آٹو بائیو گرافی آف این ان نون انڈین‘ تھی۔ میں نے اپنا وہ مضمون جس میں یہ واقعہ درج تھا بہزاد صاحب کو واٹس ایپ پر بھیجا تو اسے پڑھنے کے بعد ان کا یہ پیغام ملا:
“The Autobiography of An Unknown Indian اکاون میں پہلی بار چھپی تھی اور یہ بات عجیب سی لگتی ہے کہ بھٹو صاحب نے یہ کتاب اپنے دور اقتدار سے پہلے پڑھی نہ ہو۔ میرا قیاس ہے کہ کتاب تو بھٹو صاحب نے پڑھ رکھی ہوگی مگر سوچا ہوگا کہ جہاز کے سفر میں ایسی مایہ ناز کتاب کو دوبارہ پڑھ لینا چاہیے۔ یہ میری ایک مختصر سی تھیوری ہے جس کا درست ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔
یہ کلیہ آسکر وائلڈ نے اپنے ایک مضمون میں وضع کیا ہے۔ اس کا جملہ شاید کچھ اس طرح ہے:
If one can not enjoy reading a book over and over again, there is no use in reading it at all!
(اگر کوئی شخص کتاب کے بار بار مطالعہ سے حظ نہیں اٹھاتا تو پھر اس کے کتاب پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں)
بہزاد صاحب کی یہ بات قرین قیاس ہے کہ کتاب بھٹو صاحب نے دوبارہ پڑھی ہو کیوں کہ وہ تازہ بہ تازہ کتابوں سے باخبر رہتے تھے۔ نراد سی چودھری کی 1965 میں شائع ہونے والی کتاب “دی کانٹی نینٹ آف سرسی” کا مطالعہ بھی بھٹو صاحب نے کر رکھا تھا کیوں کہ 1969 میں جب ان کی کتاب “متھ آف انڈیپنڈینس” شائع ہوئی تو انہوں نے اپنے مؤقف کو تقویت دینے کے لیے نراد کی کتاب سے دو اقتباس نقل کیے تھے۔
بہزاد صاحب سے گفتگو میں معلوم ہوا کہ وہ نراد سی چودھری کی کتابوں اور ان کی انگریزی نثر کے شیدا ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ صفدر میر اور انتظار حسین بھی نراد سی چودھری کے بہت قائل تھے اور نیشنل بک سینٹر نے ستر کی دہائی میں اپنے پرچے ‘کتاب’ میں ادیبوں سے انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیا تھا جس میں ان سے تین پسندیدہ کتابوں کے بارے میں گفتگو کی جاتی تھی۔ انتظار حسین نے اپنی پسندیدہ کتابوں میں “کانٹی نینٹ آف سرسی” کو شامل کیا تھا اور بعد میں اس کتاب کے بارے میں محمد عمر میمن نے ان سے گفتگو بھی کی تھی۔
یہ سب باتیں تو ہو گئیں لیکن وہ بات جس نے یہ مضمون لکھنے کی تحریک دی وہ وہ بہزاد صاحب کے پیغام میں آسکر وائلڈ کا کتاب بار بار پڑھنے کے بارے میں قول ہے کیوں کہ مطالعے کے اس رخ پر بڑے عرصے سے لکھنے کا خیال میرے ذہن میں جاگزیں تھا سو اس کو عملی جامہ پہنانے کی صورت اب نکلی ہے اور اس کا آغاز ہم بورخیس کے قول سے کرتے ہیں جس کے مطابق اصل اہمیت پڑھنے کی نہیں دوبارہ پڑھنے کی ہے:
Besides, rereading, not reading, is what counts.
اوکتاویو پاز نے اپنی کتاب “آن پوئٹس اینڈ ادرز” میں رابرٹ فراسٹ سے ملاقات کی روداد لکھی ہے جسے اردو میں ممتاز شاعر احمد مشتاق نے منتقل کیا ہے۔ اس میں دونوں شاعروں نے کتاب دوبارہ پڑھنے کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ اس مکالمے میں رابرٹ فراسٹ کی کاٹ دار رائے ذرا ملاحظہ کیجیے:
“مجھے بھی کتابوں کو دوبارہ پڑھنا پسند ہے۔ میں ایسے آدمی کا اعتبار نہیں کرتا جو کتاب کو دوبارہ نہ پڑھتا ہو اور ان کا بھی جو بہت کتابیں پڑھتے ہیں۔ یہ جدید پاگل پن تو مجھے دماغ کا خلل دکھائی پڑتا ہے ۔یہ صرف نظریہ پرستوں کی تعداد میں اضافہ ہی کرے گا۔ آپ کو چند کتابیں پڑھنی چاہییں دھیان سے اور بار بار … لوگوں کو تو یہ سکھانا چاہیے کہ وہ آہستہ پڑھیں۔ زیادہ بے کلی کا مظاہرہ نہ کریں۔”
رابرٹ فراسٹ کے بعد ہم ولیم فاکنر کی بات کرتے ہیں جنہوں نے 1961 میں پیرس ریویو میں شائع ہونے والے انٹرویو میں کتابوں کی طرف بار بار پلٹنے کی بات کی تھی۔نامور اسکالر اور مترجم محمد عمر میمن نے اس انٹرویو کا ترجمہ کیا ہے جس میں فاکنر نے بتایا ہے کہ وہ سروانتیس کی کتاب “دون کیہوتے” ہر سال اسی طرح پڑھتے ہیں جس طرح لوگ بائبل پڑھتے ہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اپنے ہم عصروں کو پڑھتے ہیں تو فاکنر کا جواب تھا:
“نہیں، جو کتابیں پڑھتا ہوں وہی ہیں جن سے جوانی میں واقف اور جن کا شیدا تھا۔ میں انہیں کی طرف مراجعت کرتا ہوں جس طرح آدمی پرانے دوستوں کی طرف لوٹتا ہے … یہ کتابیں میں نے اتنی بار پڑھی ہیں کہ ہر مرتبہ پہلے صفحے سے آخری تک نہیں پڑھتا۔ کوئی ایک منظر پڑھتا ہوں، یا کسی کردار کا احوال، بالکل جس طرح آپ کسی دوست سے ملیں اور چند منٹ باتیں کریں۔”
اس مضمون میں ہم نے بہزاد عالم صاحب کو بھی ایک کردار کے طور پر ساتھ رکھنا ہے تو دوستو ہم ریڈنگز کے فسانہ کیفے سے اٹھ کر ممتاز نقاد و محقق ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب سے ‘بزمِ اقبال’ کے دفتر میں ملنے گئے جہاں فارسی شعر و ادب کے بارے میں ان سے بہزاد صاحب کی عمدہ گفتگو سے میں نے سامع کے طور پر خوشہ چینی کی۔ اس ملاقات میں بہزاد صاحب نے فراقی صاحب کے “پیام مشرق” کے بارے میں اس عالمانہ مقدمہ کی بڑی تعریف کی جو ‘بزمِ اقبال’ کی طرف سے اس کتاب کے یادگاری ڈیلکس ایڈیشن میں شامل ہے۔
اس مضمون کا زیر نظر تحریر سے یہ تعلق نکلتا ہے کہ اس میں گوئٹے کی نپولین سے ملاقات کا تذکرہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نپولین گوئٹے کی مشہور کتاب “آلام ورتھر” سات دفعہ پڑھ چکا تھا اور اس نے مصنف کے روبرو اس تصنیف پر تنقید کی تو گوئٹے نے دفاع میں جو دلائل پیش کیے اس سے عظیم جرنیل کو تسلی ہو گئی تھی۔
بہزاد عالم صاحب کی مشفق خواجہ سے بھی رسم و راہ تھی۔ ڈان میں نجی کتب خانوں کے سلسلے میں انٹرویو کے لیے خواجہ صاحب سے بڑھ کر کون اہل ہوتا لیکن انہوں نے بہزاد صاحب سے کہا پہلے ہی لوگ بہت تنگ کرتے ہیں ڈان میں کتب خانے کے بارے کچھ چھپنے سے ان کے لیے اور بھی مصیبت پیدا ہو جائے گی۔
حافظ محمود شیرانی کی میٹرک کے نصاب کے لیے مرتب کردہ کتاب “سرمایہ اردو” وہ کتاب ہے جسے طالب علموں نے بلند علمی مرتبے پر پہنچ کر بھی یاد رکھا۔ معروف نقاد صدیق جاوید کی کوششوں سے یہ باقاعدہ کتاب کی صورت میں شائع ہوئی تو مشفق خواجہ نے ان کے نام خط میں لکھا” سرمایہ اردو بھی مل گئی ہے۔ آپ نے بہت اچھا کیا کہ اس کتاب کو چھپوا دیا۔ یہ اردو نظم و نثر کا بہترین انتخاب ہے۔ آپ شاید حیران ہوں کہ یہ کتاب میرے میٹرک کے نصاب میں تھی مگر میں اب بھی ہر دوسرے تیسرے سال اسے پڑھتا ہوں۔”
ممتاز ادیب محمد خالد اختر کو پڑھنے کی چاٹ بچپن میں لگی جس کے بعد یہ روگ عمر بھر رہا ۔ کتاب دوبارہ پڑھنے کے لیے اپنے کلیے کی وضاحت وہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’جب میں کوئی نیا ناول پڑھنا چاہتا ہوں تو کوئی پرانا ناول پڑھتا ہوں۔ انگریزی میں ٹریژر آئی لینڈ اور اردو میں میر امن کی ‘چہار درویش’ دو ایسی کتابیں ہیں جنہیں میں نے کم از کم بیس اکیس بار پڑھا ہوگا۔ وہ میرے لیے ایسی سدا بہار کتابیں ہیں جن پر کبھی خزاں نہیں آئے گی ۔ ‘تذکرہ غوثیہ’ ایک اور کتاب ہے جو اشفاق نے مجھے بھجوائی تھی اور جسے میں اکثر پڑھتا رہتا ہوں۔ یہ یقیناً ہمارے ادب کی عظیم ترین کتابوں میں سے ہے جس کے پڑھنے سے دل نہیں کملاتا۔‘
خالد اختر نے اشفاق احمد کا حوالہ دیا ہے تو وہ بھی مطالعے کے بڑے رسیا تھے۔ ان کے مطالعے کی بڑی رینج تھی۔’ تذکرہ غوثیہ’ ان کی پسندیدہ کتاب تھی۔ ہمینگوئے کے “فیر ول ٹو آرمز” کا انہوں نے ترجمہ کیا۔ انشا اللہ خان انشا کی “دریائے لطافت” اور پلیٹس کی ڈکشنری ان کے دل کے بہت قریب تھیں۔ رفیق حسین کا اب تو چرچا ہونے لگا ہے لیکن اس زمانے میں جب انہیں بہت زیادہ لوگ نہیں جانتے تھے اشفاق صاحب ان کو اپنا پسندیدہ افسانہ نگار بتاتے تھے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ اہم ہیں لیکن ہم تو اس کتاب کی تلاش میں ہیں جسے انہوں نے بار بار پڑھا ہو تو قارئین آپ کے لیے اس نوع کا حوالہ بھی ہمارے توشہ خانے میں ہے۔ طاہر مسعود کی ادبی انٹرویوز کی معروف کتاب “یہ صورت گر کچھ خوابوں کے” میں شامل اشفاق احمد کے انٹرویوز سے ایک ایسی کتاب کا علم ہوتا ہے جسے انہوں نے تین دفعہ پڑھا تھا۔
غیرملکی ادب میں، بہت سوں کو پڑھا ہے لیکن جو بات دستوئفیسکی میں پائی، کہیں اور نظر نہیں آئی۔ اس کا اندازہ یوں لگائیں کہ میں”ایڈیٹ” کو تیسری دفعہ پڑھ رہا ہوں۔ کالج کے زمانے میں یہ ناول مجھے اور طرح کا لگا تھا۔ پھر جب میں نے خود لکھنا شروع کیا تو اس نے مجھے بالکل دوسرے طریقے سے متاثر کیا اور اب جبکہ میں ساٹھ سال کی عمر میں اسے پڑھ رہا ہوں تو یہ کچھ اور ہی طریقے سے دل میں اتر رہا ہے۔”
مطالعاتی زندگی میں یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ نے ایک کتاب پڑھی لیکن وہ آپ کو پکڑ نہیں سکی لیکن اس کے بعد آپ کے مطالعے میں ایسی تصانیف آئیں کہ آپ پھر سے اس کتاب کو پڑھتے ہیں اور مختلف نتیجے پر پہنچتے ہیں۔ مسعود اشعر کے ساتھ ایک بار اس طرح ہوا کہ انہیں انتظار حسین کا ناول پہلے بار پڑھنے میں گرفت میں نہیں لے سکا اس کے بعد انہیں امیتابھ گھوش کی کتاب “ان این انٹیک لینڈ” اور ولیم ڈیل رمپل کی “سٹی آف جنز” پڑھنے کا موقع ملا تو انہوں نے “آگے سمندر ہے” کو دوبارہ سے پڑھا :
“امیتابھ اور ڈیل رمپل کو پڑھنے کے بعد یہ ناول دوبارہ پڑھنے کی خواہش پیدا ہوئی اور میں نے یہ ناول ایک بار پھر پڑھا۔ اس بار ناول نے ایک اور ہی انداز میں اپنے آپ کو میرے اوپر منکشف کیا۔”
ن م راشد گورنمنٹ کالج میں پطرس بخاری کے شاگرد تھے۔ امریکا میں پطرس کو انہوں نے تنہائی کے پہاڑ کاٹتے بھی دیکھا جب انہوں نے بقول راشد ”اپنی روح کو افسری اور سفارت کے “شیاطین” کے حوالے کر دیا۔” پروفیسر انور شبنم دل سے راشد نے مرحوم استاد کے بارے میں جو گفتگو کی تھی اس میں ان کے مطالعے کے ذوق و شوق کا تذکرہ راشد نے ان الفاظ میں کیا تھا:۔
“انہیں کتابیں پڑھنے کا گویا خبط سا تھا اور شاذ ہی وہ کسی نئے ناول یا ادبی تنقید کی نئی کتاب کو حاصل کیے بغیر رہتے۔ بعض کتابیں تو انہوں نے کئی کئی مرتبہ پڑھ ڈالی تھیں۔ مثلاً کانریڈ کی “تاریکی کا دل” انہوں نے تین مرتبہ پڑھی تھی اور جیمز جوائس کی یولیسز سات مرتبہ۔ کم از کم ان کا دعویٰ یہی تھا تاہم وہ کبھی یہ خیال پیدا نہیں ہونے دیتے تھے کہ وہ کتابی آدمی ہیں اور شاذ ہی لوگوں کے سامنے کتابی علم کی نمائش کرتے تھے۔”
پطرس کے “یولیسز” سے مشکل ناول کو سات دفعہ پڑھنے سے ان کے شاگرد فیض احمد فیض کا ٹالسٹائی کے “وار اینڈ پس” کو بار بار پڑھنے کے اس بیان کی طرف ذہن منتقل ہوا۔ “کالج میں آئے تو چوں کہ فکشن کا ایک پیپر ہی تھا اس میں سارے یورپ کی فکشن ٹالسٹائی سے لے کر ہارڈی تک وہ پوری پڑھی چنانچہ مجھے اس سے کافی شغف رہا اور اب بھی ہے مثلاً ٹالسٹائی کا “وار اینڈ پیس” غالباً بارہ بارہ دفعہ پڑھا، دس دفعہ تو ضرور پڑھا تو یہ دلچسپی اب بھی قائم ہے۔”
فیض احمد فیض کی من پسند کتاب دوبارہ پڑھنے کی عادت جیل جانے پر بھی نہیں چھوٹی اور انہوں نے ایلس فیض کے نام خط میں لکھا: “تمھاری نظر میں کوئی ایسا دوست ہے جس سے چیخوف کے ڈرامے مانگ کر بھجوا سکو؟ میں “تھری سسٹرز” دوبارہ پڑھنا چاہتا ہوں۔ کالج کے زمانے میں پڑھ کر دل پر بہت اثر ہوا تھا۔ اس کے بعد دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔”
ایلس فیض نے میاں کو چیخوف کی کتاب بھیج دی جسے پڑھ کر وہ بہت لطف اندوز ہوئے اور مختصراً اپنی رائے خط میں درج کی جو اس لائق ہے کہ اسے نقل کیا جائے:
’چیخوف کی تحریر سے کتنا گہرا پیار اور کتنی بے پناہ شفقت ٹپکتی ہے۔ اس کے ڈرامے اتنے سبک ہیں کہ انہیں ٹریجڈی نہیں کہہ سکتے اور رنج و ملال سے اس کی لگن بھی ایسی ہی لطیف ہے لیکن چیخوف کے ڈراموں کا بنیادی زیور امید اور ہمدردی ہے جس سے اس کا ہر افسردہ سین لبریز نظر آتا ہے۔‘
اردو کی خوش قسمتی ہے کہ چیخوف کے ڈرامے “تین بہنیں” اور “سمندری بگلا” کا ترجمہ محمد سلیم الرحمٰن سے ممتاز مترجم نے کیا ہے اور انتظار حسین نے صحیح لکھا تھا کہ افسانہ نگار چیخوف کو تو اردو والے پہلے سے جانتے تھے ڈراما نگار چیخوف کو انہوں نے محمد سلیم الرحمٰن کے وسیلے سے جانا ہے۔ “تین بہنیں” کی 1976 میں مجلس ترقی ادب کی طرف سے اشاعت پر محمد خالد اختر نے ‘ فنون ‘ میں مفصل تبصرہ کیا تھا جس میں انہوں نے سلیم صاحب کے ترجمے کو بے عیب اور اردو کے چند ایک عمدہ ترجموں میں شمار کرنے کے بعد جو چند سطریں لکھی تھیں ان سے خالد اختر کی پسند کے چند تراجم کا علم ہوتا ہے :
محمد حسن عسکری کے “مادام بوواری”، “سرخ و سیاہ” اور “موبی ڈک” کے ترجمے ،شفیق الرحمٰن کا “ہیومن کامیڈی” کا ترجمہ، ابن انشا کے ایڈگر ایلن پو اور اوہنری کے افسانوں کے ترجمے، سب فرسٹ ریٹ ہیں۔ سلیم الرحمٰن کا یہ ترجمہ اسی گروہ میں جگہ پائے گا ۔ البتہ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں (ویسے کہنے کی ضرورت بھی نہ تھی)کہ احمد شاہ بخاری پطرس کا گالزوردی کی کہانی ‘ایپل ٹری’ کا ترجمہ ابھی تک غالباً اردو زبان میں سب سے خوبصورت ترجمہ ہے ۔واحد ترجمہ جو اوریجنل کی شاعری اور لطافت کو دوچند کرتا ہے۔”
صاحبو! کتابوں کو بار بار پڑھنے سے متعلق یہ سب باتیں میرے ذہن کے نہاں خانے میں نہ جانے کب سے محفوظ تھیں جنہیں ایک صاحبِ علم سے ملاقات نے قلمبند کرنے کی راہ سجھائی لیکن یہ موضوع مجھے مرغوب ہے لہٰذا اب اس کے بارے میں اور بھی واقعات تلاش کرنے کی کوشش جاری رہے گی اور اہلِ علم سے اس باب میں گفتگو کا بھی ڈول ڈالوں گا تاکہ کتابوں کے پرشوق قاری اس سے استفادہ کرسکیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔