بلوچستان میں محبتوں کو قتل مت کرو

پیر 21 جولائی 2025
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

نہ یہ پہلی گولی تھی نہ یہ پہلی لڑکی تھی، نہ واقعہ نیا تھا نہ یہ سانحہ نیا تھا۔  نہ اس کہانی کو خلق خدا نے پہلی دفعہ سنا تھا نہ اس داستان کا انجام کسی کے لیے نیا تھا۔ یہ دلخراش مناظر پاکستان  میں کئی دفعہ دہرائے گئے۔ کئی دفعہ محبت کرنے والوں کا انجام ایسا ہوا۔ کئی دفعہ گولیاں برسیں اور  کئی دفعہ محبتیں دم توڑ گئیں۔

 بہت سے جاہل سماج اب بھی عورت کو سب کچھ سمجھتے ہیں، ملکیت بھی، ضرورت بھی، حاجت بھی اور نجاست بھی، خباثت بھی، عداوت بھی، ندامت بھی اور بغاوت بھی۔ نہیں سمجھتے تو اسے انسان نہیں سمجھتے۔ انسانی بنیادوں پر کسی عورت کو پرکھنے سے ان کی مردانگی کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ اس سے ان کی غیرت مجروح ہوتی ہے۔ اس سے انا شکست کھاتی ہے، اس سے برابری کا شائبہ ملتا ہے۔

یہ انہی سوچوں اور سماجوں کا قصہ ہے جہاں وقت بیل گاڑی پر بیٹھ چکا ہے۔ جہاں موبائل تو پہنچ گیا مگر ذہنوں نے ترقی نہِیں کی۔ جہاں لڑکیاں ٹک ٹاک بناتی ہیں تو قتل کر دی جاتی ہیں۔ جہاں تعلیم ان کے لیے شجرِ ممنوع ہے۔ جہاں پسند کی شادی سے بڑا گناہ اور کوئی نہیں۔ جہاں مردانہ غیرت سے بڑا فلسفہ کوئی اور نہیں۔

بلوچستان  ویسے تو محبت کرنے والوں کی سر زمیں ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں صدیوں سے وہ سوچ قابض ہے جس کا خمیر جہالت سے اٹھتا ہے۔ محبتوں کی اس سرزمیں پر وہ بھی ہیں جو عورت کو کوئی مقام دینے کو تیار نہیں  اور وہ بھی جو  عورتوں کو صرف تخریب کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ایک طبقہ محبت کی شادی نہیں کرنے دیتا دوسرا وطن سے محبت نہیں کرنے دیتا۔ ایک جانب عورتوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور دوسری جانب وہ عورتیں بھی ہیں جو اپنے ہم وطنوں پر برستی گولیوں پر خاموش رہتی ہیں۔ ایک جانب بے بسی ہے دوسری جانب سازش ہے۔ ایک جانب محبت کا قتل ہے اور دوسری جانب صرف نفرت کا عمل ہے۔

وہ لوگ جو قبائلی رسم و رواج کے گن گاتے ہیں۔ ان  رسوم پر زک آنے کے خوف سے گولیاں برساتے ہیں۔ ان جاہلوں کو کوئی گریبان سے پکڑے اور پوچھے کہ یہ ہیں تمہارے رسم و رواج؟ یہ ہیں تمہاری غیرت؟ یہ ہیں تمہارے اعمال؟ اور یہ ہے تمہاری بوسیدہ  زنگ آلود سوچ۔  کیا اس جہالت کو تم رسم و رواج کا نام دیتے ہو؟ کیا اس جہالت کو تم اپنے عائلی قوانین بتاتے ہو؟ کیا اس نفرت کو تم اپنا طرہ امتیاز بناتے ہو؟

کوئی تو ان غیرت کے خود ساختہ آقاؤں سے پوچھے کہ کیا ان خون انگیز داستانوں میں تم کو اتنا لطف آتا ہے کہ تم بچوں کو تعلیم نہیں حاصل کرنے دیتے؟ کیا ان برستی گولیوں سے چھلنی جسموں کو خاک ہوتے دیکھنے میں تم کو اتنا مزا آتا ہے کہ تم ان لوگوں کو اس عائلی جور ستم کے خلاف آواز اٹھانے نہیں دیتے۔ تمہارے خوف محبت کی ہر داستان سے کیوں جڑے ہوئے ہیں؟ تمہاری غیرت کی تسکین بے بسوں پر گولیاں برسا کر کیوں ہوتی ہے؟ تمہارے دلوں کو صرف محبت کرنے والوں کو خون میں نہلا کر کیوں طمانیت حاصل ہوتی ہے؟

یہ سوال تم سے بلوچستان کی ہر عورت کرتی ہے۔ یہ سوال تم سے بلوچستان میں محبت کی ہر داستان کرتی ہے۔ اس سوال کا جواب تمہارے سارے سماج کے پاس نہیں ہے۔ اس سوال کا جواب تمہارے عائلی قوانین میں ہے نہ زنگ آلود رسم و رواج میں۔ یہ سوال کتنے دفعہ اٹھائے گئے یہ سوال کتنی دفعہ خون میں نہلائے گئے۔ یہ سوال پھر بھی تشنہ ہیں۔ یہ سوال بھی جواب مانگتے ہیں۔ یہ سوال اس ساری سوچ کے منہ پر طمانچہ ہیں جو کسی کو سانس لینے نہیں دیتی، جو کسی اور نقطہ نظر کو برداشت نہیں کرتی، جو محبت کے ہر  پیغام کو  رد کرتی ہے۔

کوئی ان سے پوچھے کہ کیا بلوچستان میں پہلے ہی خون ریزی کم ہے جو اس طرح کسی کو قتل کرنے کی ضرورت پڑی؟ کیا اس دھرتی پر خون ناحق کم بہا ہے کہ اس طرح کے جرائم کی ضرورت پڑی؟ کیا وہاں پہلے ہی نفرت کا کاروبار سرعام نہیں ہو رہا کہ اس طرح کسی کی جان لینے کی ضرورت پڑی؟  کیا وہاں دہشتگردی سے مرنے والوں کا بدلہ لے لیا گیا کہ اب نشانہ گھروں کی عورتیں کو بنانا شروع کر دیا گیا ہے؟ کیا وہاں نفرت پھیلانے والوں کا قلع قمع ہوگیا کہ اب محبتوں کا خون بہانے کی ضرورت پڑی؟

بلوچ بہت بہادر ہیں، بہت غیور ہیں، بہت مہمان ںواز ہیں، بہت اعلیٰ ظرف ہیں مگر سب ایسے نہیں۔ بدقسمتی سے بلوچوں کی نشانی وہ بن گئے ہیں جو نفرتوں کو فروغ دیتے ہیں، جو اثبات کے خلاف ہوتے ہیں۔ اور جو لوگ تعمیر چاہتے ہیں وہ بلوچستان میں پس منظر میں چلے جاتے ہیں، جو تخریب کی جانب مائل ہوتے ہیں وہ منظر عام پر آتے ہیں۔ دہشتگرد دندناتے پھرتے ہیں اور امن پسند جان بچاتے رہتے ہیں۔ یہ جہالت کے مناظر بلوچستان کی بدقسمتی ہیں۔ بلوچستان کے عوام کی بدقسمتی ہیں۔ بلوچ عورتوں کی بدقسمتی ہیں۔

یاد رکھیں! جب محبتوں کو خراج نہیں ملتا تو وہ نفرتوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ جب زخموں پر مرہم نہیں رکھا جاتا تو وہ ناسور بن جاتے ہیں۔ جہاں انسانی جذبوں کا احترام نہیں کیا جاتا تو وہاں لوگ جانور بن جاتے ہیں۔ اپنی تسکین کی خاطر انسانوں کو لوٹتے، بھنبوڑتے، اور نوچتے ہیں۔

نہ وہ انسان ہیں جو پسند کی شادی پر نہتی عورتوں پر گولیاں برساتے  ہیں اور  ان کی لاشوں  پر فتح کا جشن مناتے ہیں۔ نہ وہ انسان ہیں جو غیر بلوچوں پرگولیاں برساتے ہیں۔ اور دشمن کے ایما پر بلوچستان کا نام خاک میں ملاتے ہیں۔ جو لوگ ایک محبت کی داستان پر گولیاں برسا رہے تھے وہ بی ایل اے کے دہشتگردوں سے مختلف نہیں۔  کیونکہ ایک جانب نہتے لوگوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے دوسری جانب ریاست کے خلاف مسلح سازش کی جاتی ہے۔ جہالت کی ان 2 نشانیوں کے بیچ وہ بلوچ ہے جو انسانوں  سے بھی محبت کرتا ہے اور وطن سے بھی عشق کرتا ہے۔  المیہ یہ ہے اس بلوچ کو نفرت کے یہ پیرو کار سانس نہیں لینے دے رہے۔

ان ظالموں سے یہی کہنا ہے کہ  یہ داستان جہل ہر روز رقم مت کرو ۔ خدارا! بلوچستان میں محبتوں کو قتل مت کرو ۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

امریکی تاریخ کا طویل ترین حکومتی شٹ ڈاؤن ختم، ٹرمپ نے بل پر دستخط کر دیے

’فرینڈشپ ناٹ آؤٹ‘، دہشتگردی ناکام، سری لنکن ٹیم کا سیریز جاری رکھنے پر کھلاڑیوں اور سیاستدانوں کے خاص پیغامات

عراقی وزیرِ اعظم شیاع السودانی کا اتحاد پارلیمانی انتخابات میں سرفہرست

باعزت واپسی کا سلسلہ جاری، 16 لاکھ 96 ہزار افغان مہاجرین وطن لوٹ گئے

ملک کے بیشتر علاقوں میں موسم خشک، پہاڑی علاقوں میں شدید سردی کا امکان

ویڈیو

ورلڈ کلچر فیسٹیول میں فلسطین، امریکا اور فرانس سمیت کن ممالک کے مشہور فنکار شریک ہیں؟

بلاول بھٹو کی قومی اسمبلی میں گھن گرج، کس کے لیے کیا پیغام تھا؟

27 ویں ترمیم پر ووٹنگ کا حصہ نہیں بنیں گے، بیرسٹر گوہر

کالم / تجزیہ

کیا عدلیہ کو بھی تاحیات استثنی حاصل ہے؟

تبدیل ہوتا سیکیورٹی ڈومین آئینی ترمیم کی وجہ؟

آنے والے زمانوں کے قائد ملت اسلامیہ