خاتون کو سرعام برہنہ کرنے پر سزائے موت ختم کرنے پر غور، کیا سزائے موت اس جرم میں بہت بڑی سزا ہے؟ 

منگل 22 جولائی 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 354 اے میں مجوزہ ترمیم پر غور کرتے ہوئے خاتون کو سرعام برہنہ کرنے جیسے جرم پر سزائے موت ختم کر کے اسے عمر قید تک محدود کرنے کی سفارش  پیش کی ہے۔

اس ترمیمی بل پر بحث کے دوران کمیٹی کے بعض ارکان نے مؤقف اختیار کیا کہ سزائے موت کی موجودگی کے باوجود ایسے واقعات پر قابو نہیں پایا جا سکا، اس لیے سزا کو حقیقت پسندانہ اور قابلِ نفاذ بنایا جانا چاہیے۔ تاہم، کمیٹی کے دیگر ارکان نے مؤقف اختیار کیا کہ اس قسم کے سنگین اور شرمناک جرائم کے لیے سخت ترین سزا یعنی سزائے موت کا برقرار رہنا نہ صرف قانونی بلکہ اخلاقی تقاضا بھی ہے۔

کیا خواتین کو سرعام برہنہ کرنے جیسے جرم پر سزائے موت بہت بڑی سزا ہے؟

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے انسانی حقوق کی علمبردار فرزانہ باری کا کہنا تھا اگرچہ قانون میں سزائے موت جیسی سخت سزا موجود ہے، لیکن اس کے باوجود ہم نے کئی ایسے اندوہناک واقعات دیکھے ہیں جن میں خواتین کو سرِعام برہنہ کیا گیا یا ان کی تذلیل کی گئی۔ ان کے مطابق صرف سزائیں سخت کرنے سے معاشرتی رویے نہیں بدلتے، بلکہ اصل چیلنج قانون کا مؤثر نفاذ ہے۔

’میرے نزدیک مسئلہ یہ نہیں کہ سزا کتنی سخت ہے، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا وہ سزا واقعی دی جا رہی ہے؟ اور کیا لوگ یہ سزا عملاً ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں؟ ہمارے ہاں سب سے بڑی ناکامی یہی ہے کہ سزا کا خوف موجود نہیں، کیونکہ قانون پر عملدرآمد ناقص ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے جنگوں میں خواتین پر جنسی مظالم کیوں کیے جاتے ہیں؟

فرزانہ باری نے زور دیا کہ ایسے سنگین جرائم کے خلاف صرف قانون سازی کافی نہیں، بلکہ نظامِ انصاف میں شفافیت، بروقت کارروائی اور متاثرین کو تحفظ دینا بھی ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر سزا ملنے کا یقین ہو تو معاشرہ ایسے جرائم سے بچ سکتا ہے۔

پھانسی کی سزا کے حوالے سے انہوں نے کہا ’میری ذاتی رائے میں سزائے موت کسی مسئلے کا حل نہیں۔ اگر ہم دیکھیں تو ہمارے معاشرے میں ایسے جرائم مسلسل بڑھ رہے ہیں، حالانکہ یہ سزائیں پہلے سے موجود ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ ان مخصوص کیسز میں عمر قید زیادہ مؤثر اور عملی سزا ہو سکتی ہے۔ یعنی مجرم کو اُس وقت تک قید رکھا جائے جب تک وہ اپنی زندگی کی آخری سانس نہ لے لے۔ یہ سزا بظاہر نرم لگتی ہے، لیکن درحقیقت سزائے موت سے کہیں زیادہ سخت اور اذیت ناک ہو سکتی ہے، کیونکہ اس میں مجرم کو ہر دن اپنی سزا اور جرم کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ انصاف کی فراہمی صرف قانون بنانے سے نہیں، بلکہ نظام کو مؤثر اور جوابدہ بنانے سے ممکن ہے۔

خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے  کام کرنے والی سائرہ زاہد کا کہنا تھا کہ  ایسے واقعات جن میں کسی خاتون کو سرِ عام برہنہ کر کے اس کی تذلیل کی جاتی ہے، وہ محض جرم نہیں بلکہ انسانیت کی توہین ہیں۔ ان کے مطابق ایسے سنگین جرائم پر قانون میں کسی نرمی کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا ’ ایسے مجرموں کے لیے فوری اور مؤثر سزا ضروری ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ سزائے موت بالکل درست اور مناسب ہے۔ اور اسے برقرار رہنا چاہیے۔ اگر یہ سزا سرِعام دی جائے، تو یہ معاشرے کے لیے ایک عبرت کا نشان بن سکتی ہے۔ جب تک مجرموں کو عوام کے سامنے انجام تک نہیں پہنچایا جائے گا، تب تک ایسے دلخراش واقعات نہیں رکیں گے۔‘

یہ بھی پڑھیے بلوچستان میں خواتین صحافیوں پر ڈیجیٹل حملے، ایک خاموش محاذ کی کہانی

سائرہ زاہد نے کہا کہ قانون میں ترمیم کی بات ضرور ہو، مگر اس سے پہلے یہ سوچنا زیادہ اہم ہے کہ کیا ہم بطور معاشرہ ان جرائم کو واقعی برداشت کے قابل سمجھتے ہیں؟ اگر نہیں، تو پھر سزا کا عمل بھی اسی سنجیدگی سے ہونا چاہیے۔

’سرِ عام پھانسی کوئی انتقام نہیں بلکہ ایک علامتی پیغام ہے کہ ریاست اپنی بیٹیوں کی عزت کے تحفظ کے لیے سنجیدہ ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ انصاف کا مطلب صرف مقدمہ چلانا نہیں، بلکہ انصاف ہوتے ہوئے نظر آنا ہے۔ اور ایسے جرائم میں تاخیر یا نرمی خود ایک ظلم بن جاتی ہے۔

واضح رہے کہ بل کے محرک کا کہنا تھا، بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی روشنی میں سزائے موت پر نظرِ ثانی ضروری ہے، جبکہ مخالف ارکان نے اسے خواتین کے تحفظ کے خلاف قرار دیا۔ بحث کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ ترمیمی بل پر مزید غور کے لیے اسے موخر کر دیا جائے گا تاکہ آئندہ اجلاس میں مکمل اتفاقِ رائے سے پیش رفت ہو سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp