بالی ووڈ کے ورسٹائل اداکار نوازالدین صدیقی نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں معاشرے کی طرف سے اپنی شکل و صورت اور رنگت پر کی جانے والی تنقید، اور فلم سازوں کی جانب سے ان کے ساتھ بڑی بجٹ کی فلمیں نہ بنانے کے رویے پر کھل کر بات کی ہے۔
نوازالدین نے تسلیم کیا کہ انہیں ناکامی کا کوئی خوف نہیں۔ انہوں نے کہا مجھے کوئی ڈر نہیں ہے۔ لیکن ہاں، بہت سے اداکاروں کو ریجیکٹ کر دیا جاتا ہے، پھر بھی وہ واپس آ جاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس فلمی پس منظر اور سپورٹ سسٹم ہوتا ہے۔ ہم جیسے لوگ جیسے میں، منوج باجپئی یا اور بھی ایسے اداکار ہیں جن کو باکس آفس نہیں ملتا تو آپ منوج باجپئی سے کیا کہو گے؟ وہ تو باکس آفس سے اوپر اٹھ چکے ہیں۔ وہ اس کے پیچھے نہیں بھاگتے۔
یہ بھی پڑھیں: ’بالی ووڈ چور ہے کبھی گانے چراتا ہے کبھی کہانیاں‘، نواز الدین صدیقی
انہوں نے چند اداکاروں کی مثال دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ فلمی دنیا میں کوئی ان جیسے اداکاروں کے ساتھ بڑی بجٹ کی فلمیں بنانے کو تیار ہی نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر نصیرالدین شاہ، اوم پوری، منوج بھائی، عرفان، یا ہم جیسے دیگر اداکار، ہمارے ساتھ کبھی کسی نے 25 کروڑ روپے سے زیادہ کی فلم نہیں بنائی۔
اداکار کے مطابق دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ ہماری فلمیں دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ان تک اسکرینز پہنچتی ہی نہیں۔ اگر آپ ہمارے باکس آفس نمبرز دیکھنا چاہتے ہیں تو کم از کم ہمیں وہ اسکرینز تو دیں۔ تب ہی پتا چلے گا کہ ہمیں دیکھنے کتنے لوگ آنا چاہتے ہیں۔ آج ہم عرفان کی بڑی تعریف کرتے ہیں، بے شک وہ زبردست اداکار تھے، لیکن کسی نے انہیں 20-25 کروڑ کی فلم میں کاسٹ نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیں: نواز الدین صدیقی نے خود کو بالی ووڈ کا ’بدصورت ترین‘ اداکار کیوں قرار دیا؟
نوازالدین صدیقی نے کہا کہ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ دو قسم کے اداکار ہوتے ہیں، ایک عوام کے اور ایک انڈسٹری کے۔ چاہے عوام انڈسٹری والے اداکار کو دیکھنا نہ چاہے، ان کی فلمیں آپ کے گھر کے سامنے ریلیز کر دی جاتی ہیں۔ لیکن جس اداکار کی فلم عوام واقعی دیکھنا چاہتی ہے، اس کی فلم کو صرف 200-300 اسکرینز ملتی ہیں، ایک صبح کا شو اور ایک رات کا۔ مجھے یہ چیز پریشان کرتی ہے۔
نوازالدین نے بتایا کہ انہیں اس وقت بہت مایوسی ہوئی جب انوراگ کشیپ کی ہدایتکاری میں بنی ان کی فلم ’رمن راگھَو 2.0‘ کو مناسب تعداد میں اسکرینز نہیں ملیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب فلم ریلیز ہوئی تو بہت کم سنیما گھروں میں دکھائی گئی۔ جب ریلیز ہوئی تو ہمیں گالیاں بھی سننی پڑیں کہ یہ کیسی فلم بناتے ہیں لیکن جب یہی فلم او ٹی ٹی ہر دکھائی گئی تو لوگوں نے کہا کہ کیا کمال کی فلم ہے۔ یہ کئی لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی ڈرامہ نگار اور اداکار دونوں ہی باکمال ہیں، نواز الدین صدیقی
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے انڈسٹری میں اپنی شکل و صورت پر ہونے والی تنقید کا سامنا کیا، تو 51 سالہ نوازالدین نے کہا وہ تو آج تک جھیلنی پڑتی ہیں۔ خوش قسمتی سے انڈسٹری ایسا نہیں سوچتی، لیکن معاشرے میں یہ چیز اب بھی موجود ہے۔ شروع کے دنوں میں کئی لوگوں نے کہا، ‘آپ اداکار نہیں لگتے۔’ اس سے مجھے بہت برا لگتا تھا۔ کیا کریں اب؟ کالا ہوں تو یہاں تک پہنچ گیا، اگر گورا ہوتا تو کیا کر لیتا؟
واضح رہے کہ نوازالدین صدیقی بالی ووڈ کے ورسٹائل اداکار ہیں جو گینگز آف واسع پور، کہانی، لنچ باکس، بدلہ پور جیسی ہٹ فلموں اور مشہور ویب سیریز سیکرڈ گیمز میں اپنی اداکاری کا لوہا منوا چکے ہیں۔
وہ بھارتی فلم انڈسٹری میں امتیازی سلوک کے حوالے سے پہلے بھی کھل کر بات کرچکے ہیں اور ہمیشہ اپنے ناقدین کو اپنی جاندار اداکاری سے جواب دیتے آئے ہیں۔