سعودی حکومت نے غیرسعودی افراد واداروں کے لیے مملکت میں جائیداد کی ملکیت وسرمایہ کاری سے متعلق نیا نظام منظور کرلیا ہے، جو موجودہ عالمی سرمایہ کاری کے رجحانات اور وژن سعودی عرب 2030 کے اہداف سے ہم آہنگ ہے۔ اس نئے نظام کا نفاذ جنوری 2026 سے ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں:فرانس کے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلان کا سعودی عرب کی جانب سے خیرمقدم
ریئل اسٹیٹ جنرل اتھارٹی کے تحت جاری کیے گئے اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ نیا نظام غیرسعودی افراد، غیرسعودی کمپنیوں، سفارتی مشنز اور ان غیرملکی کمپنیوں پر لاگو ہوگا جن کے سعودی شراکت دار ہوں۔
نیا قانون مملکت کے اندر اور باہر سے آنے والے افراد کو جائیداد کی تمام اقسام میں ملکیت کی اجازت دیتا ہے، بشرطیکہ وہ قانون میں درج معیار پر پورا اتریں۔
نئے نظام کے تحت غیر سعودیوں کو مخصوص دستاویزات کے تحت جغرافیائی حدود میں ملکیت کی اجازت دی جائے گی، تاہم مکہ ومدینہ میں ملکیت صرف مسلمانوں کو دی جا سکے گی، وہ بھی ان علاقوں میں جو حکومت کی جانب سے متعین کیے جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:سعودی عرب میں ٹرین سے سفر کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ریکارڈ
یہ قانون سابقہ قوانین کی نسبت زیادہ کھلا اور سرمایہ کاری دوست تصور کیا جا رہا ہے، جس میں سابقہ نظام 1421 اور سفارتی نظام 1440 کو شامل کر کے جامع اصلاحات کی گئی ہیں۔
تاہم نئے ضوابط کے تحت خالصتاً خالصہ اراضی، عسکری یا حساس مقامات اور ان علاقوں میں ملکیت کی اجازت نہیں ہوگی جہاں قانوناً اجازت نہیں دی گئی۔
ریئل اسٹیٹ اتھارٹی نے واضح کیا ہے کہ نیا قانون سرمایہ کاروں کو یہ موقع دے گا کہ وہ مملکت میں جائیداد کو ذاتی رہائش یا کاروباری مقصد کے لیے حاصل کرسکیں۔
نئے نظام کے تحت ملک میں پراپرٹی کے شعبے میں نئی سرگرمیوں کا آغاز متوقع ہے جس سے ہاؤسنگ مارکیٹ، تعمیراتی شعبے اور ملکی معیشت کو مزید تقویت ملے گی۔
یہ اقدام نہ صرف سعودی عرب میں بیرونی سرمایہ کاری کے فروغ کا باعث بنے گا بلکہ رہائشی بحران پر قابو پانے میں بھی مددگار ثابت ہو گا، جیسا کہ وژن 2030 میں بیان کردہ قومی ترقیاتی اہداف میں درج ہے۔