عزیر بلوچ ہو، رحمان بھولا ہو یا عبید کے ٹو سمیت کوئی بھی عام قیدی ہو جب بھی ان سے ملاقات ہوئی انہوں نے کبھی اپنا جرم تسلیم نہیں کیا اور شہر قائد میں تو جرائم بھی ایسے ہوتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جائے، جیلوں میں اسی تناسب سے قیدیوں کی تعداد بھی گنجائش سے زیادہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی کی ملیر جیل سے سینکڑوں قیدی کیسے فرار ہوئے؟
جرم جو بھی ہو اس میں قید شخص جیل میں جیسی زندگی بھی جی رہا ہو لیکن لواحقین کا جینا دوبھر ہوجاتا ہے، روزانہ ملاقات کی درخواست جیل کے چکر کاٹنا اس کے بعد بھی اگر کامیابی مل جائے تو کئی مراحل کے بعد اہل خانہ اپنے عزیز سے ملاقات کے لیے پہنچ جاتے ہیں اور وہ ملاقات بھی ایسی کہ آپ دیکھ تو سکتے ہیں لیکن ایک دوسرے کو پر چھو سکتے ہیں اور نہ ہی فون ریسیور کے بنا آواز سن سکتے ہو، یہ کہانی کراچی کے سینٹرل جیل کی ہے جہاں روزانہ ہزاروں مرد، خواتین، بوڑھے بچے اپنے جاننے والے قیدی سے کچھ لمحے کی ملاقات کے لیے کئی گھنٹے لگا دیتے ہیں۔
مزید پڑھیے: کراچی کی سینٹرل جیل کیسے حکومت سندھ کو کروڑوں روپے کا فائدہ پہنچائے گی؟
سپرنٹینڈینٹ جیل عبدالکریم عباسی کا کہنا ہے کہ ملیر جیل واقعہ کے بعد ہم نے سینٹرل جیل کی سیکیورٹی سخت کردی ہے، جیل کے مرکزی دروازے سے لے کر قیدیوں سے ملاقات تک کئی بار اہل خانہ کی چیکنگ ہوتی ہے، ساتھ ہی قیدیوں کے کیے جو سامان آتا ہے اسے بھی چیک کیا جاتا ہے، واک تھرو گیٹس سیکیوریٹی کیمرے، رینجرز اور پولیس اہلکار تعینات ہیں تا کہ کسی ناخوشگوار واقع سے بروقت نمٹا جا سکے۔ دیکھیے یہ ویڈیو رپورٹ۔