ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر ہراسانی کے خلاف اہم قدم اٹھاتے ہوئے صدرِ مملکت نے خواتین کو کام کی جگہ پر ہراسانی سے بچانے کے قانون (2010) کے تحت وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی (فوسپاہ) کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ہراسانی کے جرم میں برطرفی، سی ای او کے الیکٹرک مونس علوی کا بیان بھی سامنے آگیا
یہ کیس اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن آف پاکستان میں ایک اعلیٰ عہدیدار کے خلاف تھا۔ جمعرات کو وفاقی محتسب سیکریٹریٹ سے جاری بیان کے مطابق شکایت کنندہ عروج واحد نے شکایت درج کرائی تھی کہ اسٹیٹ لائف کے اسسٹنٹ جنرل منیجر کامران چنہ نے انہیں واٹس ایپ اور دیگر ڈیجیٹل ذرائع سے نازیبا اور نامناسب پیغامات بھیجے جن میں جنسی نوعیت کے جملے شامل تھے۔
کامران چنہ نے پیغامات بھیجنے کا اعتراف تو کیا لیکن فوسپاہ کے اس فیصلے کو چیلنج کیا جس میں انہیں نوکری سے برطرف کرنے اور 3 لاکھ روپے جرمانہ عائد کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
انہوں نے صدر پاکستان کے پاس اپیل دائر کی۔صدر کے سامنے پیشی کے دوران کامران چنہ نے بغیر کسی مزید وضاحت کے نہ صرف عروج واحد بلکہ ان کی والدہ سے بھی غیر مشروط معافی مانگی۔
مزید پڑھیے: پنجاب اسمبلی میں خاتون ایم پی اے کے ساتھ ہراسانی کا معاملہ کیسے ہوا؟
فریقین کو سننے کے بعد صدر نے ہراسانی کے الزامات کو درست قرار دیا مگر کامران چنہ کی 29 سالہ بے داغ سروس کو دیکھتے ہوئے انہیں برطرف کرنے کی سزا کو جبری ریٹائرمنٹ میں تبدیل کر دیا تاہم صدرِ پاکستان نے متاثرہ خاتون کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُن کے لیے ہرجانے کی رقم 3 لاکھ سے بڑھا کر 10 لاکھ روپے کر دی کیونکہ عروج واحد کو اس ہراسانی کے باعث ذہنی دباؤ اور مجبوری میں نوکری چھوڑنی پڑی تھی۔
مزید پڑھیں: طالبہ کی طرف سے ہراسانی کی شکایت پر اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور کا اسسٹنٹ پروفیسر برطرف
صدر پاکستان نے اسٹیٹ لائف کو یہ بھی ہدایت کی ہے کہ عروج واحد کو دوبارہ نوکری پر رکھا جائے کیونکہ ان کا استعفیٰ رضاکارانہ نہیں تھا بلکہ اُس ماحول کا نتیجہ تھا جو ہراسانی کے باعث پیدا ہوا۔














