کراچی کی جیلوں میں جہاں گنجائش سے زیادہ قیدی موجود ہیں، وہیں دوسری جانب سینٹرل جیل کراچی میں قیدیوں کو ایسی سہولیات فراہم کی گئی ہیں جن سے استفادہ کرتے ہوئے وہ اپنی بقیہ زندگی ایک اچھے انسان کی طرح گزار سکتے ہیں اور سزا مکمل ہونے کے بعد معاشرے کے اہم فرد بن سکتے ہیں۔ اب یہ قیدی پر منحصر ہے کہ وہ بغیر کچھ سیکھے بغیر قید مکمل کرلے یا تعلیم کے ساتھ فن میں مہارت حاصل کرلے۔
کچھ قیدی تو ایسے بھی ہیں جو نا صرف فنکار بن چکے ہیں بلکہ ان کے فن پاروں کے چرچے جیل سے باہر تک ہورہے ہیں۔
’وی نیوز‘ نے اعجاز نامی قیدی کے بارے میں کچھ عرصہ قبل ایک کہانی پیش کی تھی، اسی طرح ایک بزرگ قیدی شاکر منظور ہیں جو قتل کے کیس میں جیل میں سزا کاٹ رہے ہیں، دوسری جانب خواتین جیل میں ان کی اہلیہ بھی اسی کیس میں سزا پوری کررہی ہیں۔
شاکر اور ان کی اہلیہ تو جیل میں ہیں لیکن ان کے 3 بچوں کے اخراجات کے لیے شاکر نے اوائل میں موتیوں سے پرس اور دیگر اشیا بنا کر بیچنا شروع کیں، پھر ان اشیا کو اپنی بیگم کے ذریعے خواتین جیل میں متعارف کرایا۔
اب انہوں نے خود یہ اشیا بنانا چھوڑ دی ہیں، وہ دیگر قیدیوں سے سامان خرید کر جیل اور جیل سے باہر بیچنے کے لیے بھیجتے ہیں۔ شاکر جیل میں رہتے ہوئے ہی ایک کامیاب تاجر بن چکے ہیں جو قید کاٹنے کے ساتھ ساتھ وہیں سے اپنے بچوں کے اخراجات پورے کررہے ہیں۔ مزید جانیے وقاص خان کی اس رپورٹ میں۔