افراط زر میں کمی؛ کیا شرح سود کو 6 فیصد تک لایا جا سکتا ہے؟

پیر 4 اگست 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں حالیہ مہینوں کے دوران افراط زر میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے، جس کے بعد یہ سوال زیرِ بحث ہے کہ آیا اب شرحِ سود میں نمایاں کمی کا وقت ہوچکا ہے یا نہیں، بعض معاشی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ موجودہ معاشی حالات، خاص طور پر افراط زر کی سست روی، شرحِ سود کو 6 فیصد تک لانے کی گنجائش فراہم کرتے ہیں۔

تاہم، متعدد ماہرین معاشیات اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے اور محتاط مالی پالیسی جاری رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ کرنسی پر دباؤ، درآمدات میں اضافے اور مالیاتی عدم توازن جیسے خدشات سے بچا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیں:آئندہ ماہ سے مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوگا: گورنر اسٹیٹ بینک

ماہرِ معیشت ڈاکٹر عابد سلہری کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں افراط زر میں کچھ کمی ضرور آئی ہے، لیکن اس میں دوبارہ اضافہ متوقع ہے، ان کے مطابق جب افراط زر کا موازنہ پچھلے سال کی نسبت سے کیا جاتا ہے، تو ہر نئے مہینے میں معمولی سہی لیکن اضافہ ضرور نظر آتا ہے، اسی لیے یہ ضروری تھا کہ شرحِ سود کو فوری طور پر کم نہ کیا جائے۔

ڈاکٹر عابد سلہری نے واضح کیا کہ شرحِ سود کا تعلق صرف افراط زر سے نہیں بلکہ روپے کی قدر سے بھی ہے، اگر شرح سود میں اچانک اور زیادہ کمی کی گئی، تو لوگ بینکوں میں موجود اپنی بچتوں کو ڈالرز میں تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے۔

مزید پڑھیں:مہنگائی 6 دہائیوں کی کم ترین سطح پر، جون تک زرمبادلہ کے ذخائر 13 ارب ڈالر سے زائد ہوں گے، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب

’جس سے مارکیٹ میں ڈالر کی طلب بڑھ جائے گی اور روپے پر دباؤ آئے گا، نتیجتاً، روپے کی قدر میں گراوٹ آئے گی اور زرمبادلہ کے ذخائر بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔‘

ڈاکٹر عابد سلہری کے مطابق اسٹیٹ بینک کے لیے یہ ایک نازک توازن ہے، ایک طرف شرح سود کو افراط زر پر قابو پانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، تو دوسری جانب اسے روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے کا ذریعہ بھی بنایا جاتا ہے۔ ’اگر موجودہ حالات میں شرح سود کو کم کر کے 6 فیصد تک لایا گیا، تو اس سے روپے کی قدر کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘

مزید پڑھیں:کیا شرح سود میں کمی معاشی بہتری کا اشارہ ہے؟

’میرا نہیں خیال کہ شرح سود کو اس وقت 6 فیصد تک لانے کی ضرورت ہے، مانیٹری پالیسی کو موجودہ احتیاط کے ساتھ ہی آگے لے کر چلنا چاہیے۔ جب کچھ گنجائش پیدا ہو، زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئے، اور آئی ایم ایف کے اگلے ریویو کے بعد آر ایس ایف سے کچھ فنڈز دستیاب ہوں، تب شرحِ سود میں نرمی پر غور کیا جا سکتا ہے۔‘

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر عابد سلہری کا کہنا تھا کہ چونکہ گزشتہ برس افراط زر کی شرح کم تھی، اس لیے رواں سال جب اسی مدت سے موازنہ کیا جائے گا، تو اعداد و شمار میں افراط زر زیادہ محسوس ہوگا، اگرچہ حقیقی معاشی دباؤ اتنا نہ ہو۔

مزید پڑھیں:اپٹما کا مانیٹری پالیسی کمیٹی سے شرح سود میں 400 بیسس پوائنٹس کی کمی کا مطالبہ

معاشی ماہر راجہ کامران کے مطابق پاکستان میں اس وقت شرحِ سود یعنی پالیسی ریٹ کو ایک خاص سطح پر برقرار رکھا گیا ہے، اور اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت حقیقی شرحِ سود کو مثبت رکھنا چاہتی ہے۔ ’یعنی مہنگائی کی شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے سود کی شرح میں تھوڑا سا اضافہ برقرار رہے، تاکہ سرمایہ کاری اور خرچ کرنے کے رجحانات کو متوازن رکھا جا سکے۔‘

راجہ کامران کے مطابق اگر شرحِ سود کم کی جائے تو لوگ بینکوں سے آسانی سے قرض لے کر گاڑیاں، موبائل فونز اور دیگر مہنگی درآمدی اشیا خریدنے لگتے ہیں، اس کے نتیجے میں ملک کی درآمدات بڑھ جاتی ہیں، جو تجارتی توازن کو نقصان پہنچاتی ہیں۔

مزید پڑھیں:شرح سود میں کمی کے عام آدمی اور معیشت پر کیا اثرات ہوں گے؟

’چونکہ پاکستان میں بنیادی صنعتی ڈھانچہ موجود نہیں، اس لیے جب ہم گاڑیاں یا دیگر اشیاء بنانے کی کوشش کرتے ہیں، تو ان کے بیشتر پرزے بیرونِ ملک سے منگوانے پڑتے ہیں۔ اس سے نہ صرف درآمدات بڑھتی ہیں بلکہ زرمبادلہ کے ذخائر پر بھی دباؤ پڑتا ہے، جو بالآخر بیلنس آف پیمنٹ کے بحران کو جنم دے سکتا ہے۔‘

راجہ کامران سمجھتے ہیں کہ اسی وجہ سے حکومت روپے میں قرض لینے کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے تاکہ معیشت کو ضرورت سے زیادہ دباؤ سے بچاتے ہوئے درآمدات کو قابو میں رکھا جا سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp