عمران خان کی سیاست فیصلہ کن موڑ پر

بدھ 10 مئی 2023
author image

خورشید ندیم

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آ چکی ہے۔

9 مئی 2023کے بعد،عمران خان صاحب کی سیاست، اگررہے گی تو وہ نہیں رہے گی جو اس سےپہلے تھی۔ فریقین کی طرف سے کسی نے ریڈ لائن کا خیال نہیں رکھا۔ تحریک ِانصاف کی ریڈ لائن عمران خان صاحب تھے۔ ان کے مداحوں کی طرف سے، مدت سے اعلان کیا جا رہا تھا کہ’ خبر دار! کوئی خان کو ہاتھ نہ لگائے۔ عمران خان ہماری ریڈ لائن ہے‘۔ دوسرے فریق کی ریڈ لائن، سب جانتے ہیں کہ جی ایچ کیو ہے۔ 9۔مئی کو دونوں طرف سے ریڈ لائن پامال کر دی گئی۔ دونوں کی سیاست اب وہ نہیں رہے گی جو پہلے تھی۔

9مئی کو تحریکِ انصاف نے بتا دیا کہ اس کا اصل حریف کون ہے؟ ’حریف‘ کو بھی ظاہر ہے کہ اب اپنا دفاع کرنا ہے۔ یہ کھلی جنگ کا آغاز ہے۔فواد چوہدری صاحب اوراسد عمر صاحب کو شاید یہ احساس ہو چلا تھا کہ معرکہ اب فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکا۔ دونوں نے بھانپ لیا تھا کہ اب اگر خان صاحب کو روکا نہ گیا تو واپسی مشکل ہو جائے گی۔ اسد عمر نے تجویز پیش کی کہ دونوں ’افواج ‘ کے سپہ سالار ایک بند کمرے میں مل بیٹھیں۔ خان صاحب کی افتادِ طبع کو یہ بات سازگار نہیں تھی۔ یوں وہ مرحلہ آ گیا جس سے روکا جا رہا تھا۔

عمران خان صاحب کی گرفتاری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے قانون کے مطابق قرار دے دیا ہے۔ تحریک ِ انصاف نے صرف ایک دن میں اتنے شواہد فراہم کر دیے ہیں کہ اسے خلافِ قانون قرار دینا اب مشکل نہیں رہا۔ عمران خان کو اگر اب سیاست کرنی ہے تو فریقِ ثانی کی شرائط پر بصورتِ دیگر شاید سیاست میں متحرک رہنا ان کے لیے آسان نہ ہو۔

نوازشریف صاحب اور دیگر اہلِ سیاست، مقتدر حلقوں کو مسلسل یہ پیغام دیتے آئے ہیں کہ یہ آپ کا پروجیکٹ ہے۔ اسے سمیٹنے کی خدمت بھی آپ ہی کو سر انجام دینا ہے۔ عمران خان صاحب کی نرگسیت، حالات کے فہم کے لیے حجاب بن گئی۔ وہ یہ بات نہیں سمجھ پائے کہ اقتدار کی سیاست ، مقتدر حلقوں کی مخالفت تو شاید برداشت کرلے، دشمنی برداشت نہیں کر پائے گی۔ انہوں نے خیال کیا کہ نئی نسل کی ان کے ساتھ وابستگی عقیدت کی حدوں سے گزر گئی ہے۔ وہ راہنما نہیں، اب مرشد کے منصب تک پہنچ چکے۔ وہ اب طوفان اٹھا دینے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اس زعم میں وہ بہت دور تک جا نکلے۔

9مئی کو تحریکِ انصاف کے احتجاج کا رخ کسی روایتی سیاسی جماعت کی طرف نہیں تھا۔ شاہ محمود قریشی چونکہ پرانے گھاگ ہیں،وہ سمجھ گئے کہ اس رخ پر پیش قدمی بہت خطرناک ہو گی۔ انہوں نے اس کا رخ راولپنڈی سے لندن کی طرف کر نا چاہا، تب تک لیکن دیر ہو چکی تھی۔ طفلِ مکتب بھی جان چکا ہے کہ عمران خان صاحب کس کو اپنا ممکنہ قاتل قرار دے رہے ہیں اور کسے اپنا حقیقی فریق سمجھتے ہیں۔ آج کے احتجاج نے جو صف بندی کر دی ہے، اس کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔

عمران خان صاحب کے طرزِ عمل نے، واقعہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کو مضبوط کیا ہے۔ وہ اگر سیاسی بصیرت سے کام لیتے توجان لیتے کہ ان کے سیاسی حلیف، روایتی سیاست دان تھے۔ وہ اگر ان کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھاتے اور ووٹ کی عزت کے لیے ان کا ساتھ دینے کا اعلان کرتے تو سیاست فطری تقسیم کی طرف لوٹ جا تی۔

حکومت کے خاتمے کے بعد اگر وہ اہلِ سیاست کو یہ دعوت دیتے کہ ریاستی اداروں کی سیاسی مداخلت کے خلاف، مل کر حکمت عملی تشکیل دی جائے تو نون لیگ سمیت، انہیں دیگر جماعتوں کی حمایت حاصل ہوتی۔ اپنی عوامی تائید کے جوش میں انہوں نے اہلِ سیاست کو اپنا مخالف بنایا اور مقتدرہ کو بھی۔

نوازشریف صاحب پر گزشتہ 7 برسوں میں جو بیتا، اگر وہ ان کی نظر میں ہوتا تو وہ حلیف اور حریف کے انتخاب میں حکمت کا مظاہرہ کرتے۔ انہوں نے یہ چاہا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لا کراسے اپنا ہم نوا بنا لیں گے اور نواز شریف صاحب کی سیاست کا خاتمہ کر دیں گے۔ وہ آخری وقت تک نہیں جان سکے کہ ان کے حقیقی حریف نوازشریف نہیں،کوئی اور ہے۔

اپنی نرگسی طبیعت کے زیرِ اثر انہوں نے سب پر حقارت کی نظر ڈالی اور یہ گمان کیا کہ وہ چومکھی لڑائی لڑ سکتے ہیں۔ یہی نہیں،انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو اپنا سب سے بڑا حریف قرار دے کر،ا ن کے نیوٹرل رہنے کے امکانات کو ختم کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ان کی سیاست ایک فیصلہ کن موڑ لے چکی۔ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی کردار بھی پوری طرح بحال ہو گیا۔ یوں ان کی غیر حکیمانہ سیاست سے پاکستان جمہوریت سے مزید دور ہو گیا۔

عمران خان صاحب نے خود ہی اس امکان کو ختم کر دیا کہ اس معرکہ آرائی میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں، ان کا ساتھ دیں۔ وہ انتخابات جوانہیں بہ آسانی مل سکتے تھے، اب ان کے لیے خواب ہو کر رہ گئے ہیں۔

سب جانتے ہیں کہ شہباز شریف صاحب پچھلے برس مئی میں استعفیٰ دے کر انتخابات کے لیے تیار ہوگئے تھے۔ ان کی تقریر بھی لکھی جا چکی تھی۔ اس وقت بھی خان صاحب کی نرگسیت آڑے آئی اور وہ یہ موقع گنوا بیٹھے۔ اس وقت وہ اپنی مرضی کا آرمی چیف چاہتے تھے۔ آج وہ انتخابات کے وقت اپنی مرضی کا چیف جسٹس چاہتے ہیں۔ پہلا موقع ہاتھ سے گیا اور اب دوسرا بھی۔ اسی لیے میرا کہنا ہے کہ آج کا دن پاکستان کی سیاست میں تبدیلی کا دن ہے۔ اقتدار کی دیوی، معلوم ہوتا ہے کہ آج خان صاحب سے پوری طرح روٹھ گئی۔ اسٹیبلشمنٹ کا کردار ایک بار پھر بڑھ گیا۔ اس کا سہرا عمران خان صاحب کی سیاست کے سر ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

دانش ور، کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ مذہب کا ریاست اور سماج سے تعلق ان کی دلچسپی کا میدان ہے۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp