چاند پر انسانی بستی کے لیے بجلی کی فراہمی کا منصوبہ، ناسا نے نیوکلیئر ری ایکٹر پر کام تیز کردیا

بدھ 6 اگست 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

امریکی خلائی ادارہ ناسا چاند پر توانائی کے مستقل ذرائع کے لیے نئی تاریخ رقم کرنے جا رہا ہے۔ اس حوالے سے اس نے سنہ 2030 تک چاند پر ایک نیوکلیئر ری ایکٹر نصب کرنے کے منصوبے کو تیز کر دیا ہے۔ یہ قدم چاند پر انسانوں کے مستقل قیام کی امریکی خواہشات کا حصہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چاند پر پانی اور معدنیات کی تلاش کا مشن ناکام، ناسا کا لونا ٹریل بلیزر منصوبہ ختم

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب چین اور روس بھی چاند پر اپنے قدم مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ناسا کے قائم مقام سربراہ نے متنبہ کیا ہے کہ یہ ممالک مستقبل میں چاند پر ’داخلہ ممنوعہ زون‘ قائم کر سکتے ہیں یعنی مخصوص علاقوں پر دعویٰ کر کے دوسروں کو روک سکتے ہیں۔

اگرچہ ناسا کو حالیہ بجٹ میں 24 فیصد تک کٹوتی کا سامنا ہے اور مارس سیمپل ریٹرن سمیت کئی سائنسی منصوبے متاثر ہو رہے ہیں تاہم امریکی حکام اس نیوکلیئر منصوبے کو قومی سلامتی اور خلائی معیشت کے لیے ضروری قرار دے رہے ہیں۔

امریکی ٹرانسپورٹ سیکریٹری اور ناسا کے عبوری سربراہ شان ڈفی نے تجارتی کمپنیوں سے کم از کم 100 کلو واٹ توانائی پیدا کرنے والے نیوکلیئر ری ایکٹر کی تجاویز طلب کی ہیں۔ اگرچہ یہ مقدار زمین پر لگنے والے عام ونڈ ٹربائنز کے مقابلے میں کم ہے لیکن چاند جیسے مشکل ماحول کے لیے یہ ایک انقلابی قدم ہے۔

چاند پر سولر توانائی پر انحصار کیوں مشکل؟

چاند پر ایک دن زمینی وقت کے مطابق تقریباً 4 ہفتے کا ہوتا ہے یعنی 2 ہفتے مسلسل سورج کی روشنی اور 2 ہفتے مکمل اندھیرا۔ یہی وجہ ہے کہ صرف سولر توانائی پر انحصار مشکل ہے۔

مزید پڑھیے: ’بک مون‘ کے ساتھ سرخی مائل چاندنی رات کا نظارہ

ماہرین کے مطابق اگر چاند پر انسانوں کا مستقل قیام ممکن بنانا ہے تو نیوکلیئر توانائی ناگزیر ہے۔

یونیورسٹی آف سرے کے خلائی ماہر ڈاکٹر سنگ وولِم کے مطابق میگاواٹ سطح کی توانائی کے بغیر چاند پر انسانی بستی کا قیام ممکن نہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیوکلیئر توانائی محض ایک آپشن نہیں بلکہ یہ ایک ناگزیر حقیقت ہے۔

چین اور روس بھی میدان میں

2022 میں ناسا نے تین کمپنیوں کو نیوکلیئر ری ایکٹر ڈیزائن کرنے کے لیے 5 ملین ڈالر کے معاہدے دیے تھے۔ دوسری طرف چین اور روس نے رواں سال مئی میں اعلان کیا کہ وہ سنہ 2035 تک چاند پر خودکار نیوکلیئر پاور اسٹیشن بنانے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔

کائنات کی کھوج یا خلائی سیاست؟

ماہرین اس منصوبے کو سائنسی سے زیادہ جغرافیئی سیاست سے جوڑتے ہیں۔ اوپن یونیورسٹی کے پلینیٹری سائنس کے ماہر ڈاکٹر سیمیون باربر کا کہنا ہے کہ اگرچہ مقابلہ جدت پیدا کر سکتا ہے لیکن جب توجہ صرف ملکی مفادات اور ملکیت پر مرکوز ہو جائے تو ہم اصل مقصد یعنی کائنات کی تلاش سے بھٹک سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: چین اور روس چاند پر ایٹمی بجلی گھر بنائیں گے

ناسا کا یہ منصوبہ “آرٹیمس معاہدے سے بھی جڑا ہوا ہے جس پر سنہ 2020 میں 7 ممالک نے دستخط کیے تھے تاکہ چاند پر پرامن سرگرمیوں کے اصول طے کیے جا سکیں۔ ان معاہدوں کے تحت ہر ملک اپنے آلات اور بیسز کے گرد حفاظتی حدود قائم کر سکتا ہے جسے بعض ماہرین ایک طرح کی ’چاند کی ملکیت‘ تصور کر رہے ہیں۔

کئی سوال ہنوز تشنہ طلب

ابھی اس حوالے سے کئی سوالات ایسے ہیں جن کے آسان جواب انسان کے پاس نہیں۔ چاند پر نیوکلیئر ری ایکٹر بھیجنا آسان نہیں۔ تابکار مواد کو زمین کے ماحول سے گزار کر خلا میں لے جانا ایک حساس عمل ہے اور اس کے لیے خصوصی اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ ناسا کا آرٹیمس 3 مشن جو سنہ 2027 میں انسانوں کو چاند پر لے جانے کا ہدف رکھتا ہے وہ بھی تاخیر اور مالی مشکلات کا شکار ہے۔

ڈاکٹر باربر خبردار کرتے ہیں کہ اگر آپ کے پاس چاند پر نیوکلیئر بجلی ہے لیکن وہاں پہنچنے کا راستہ ہی نہیں تو وہ بجلی کس کام کی؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

یورپی یونین انڈو پیسفک فورم: اسحاق ڈار کی سنگاپور کے وزیرِ خارجہ اور بنگلادیشی سفیر سے غیررسمی ملاقات

ٹی20 ورلڈ کپ 2026: پاکستان اور بھارت ایک ہی گروپ میں، میچ 15 فروری کو کولمبو میں ہوگا

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف سے نیشنل سیکیورٹی ورکشاپ کے شرکا کی ملاقات

ایبٹ آباد میں مسافر وین کو حادثہ، باپ بیٹے اور 2 بہنوں سمیت 6 افراد جاں بحق

ٹرمپ نے صحافی کے سخت سوال پر ممدانی کو کیسے مشکل سے نکالا؟

ویڈیو

میڈیا انڈسٹری اور اکیڈیمیا میں رابطہ اور صحافت کا مستقبل

سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے حساس ڈیٹا کیوں چوری کیا؟ 28ویں آئینی ترمیم، کتنے نئے صوبے بننے جارہے ہیں؟

عدلیہ کرپٹ ترین ادارہ، آئی ایم ایف کی حکومت کے خلاف چارج شیٹ، رپورٹ 3 ماہ تک کیوں چھپائی گئی؟

کالم / تجزیہ

ثانیہ زہرہ کیس اور سماج سے سوال

آزادی رائے کو بھونکنے دو

فتنہ الخوارج، تاریخی پس منظر اور آج کی مماثلت