پاکستان میں پہلی مرتبہ زراعت کے شعبے کی مکمل اور واضح تصویر ڈیجیٹل زرعی شماری کے ذریعے سامنے آ گئی ہے۔
ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق ملک میں ایسے 17 ہزار بڑے زمیندار موجود ہیں جن کے پاس 100 ایکڑ یا اس سے زیادہ زرعی زمین ہے۔ یہ افراد مجموعی طور پر 36 لاکھ 50 ہزار ایکڑ زمین کے مالک ہیں، جو کہ ملک کی کل زرعی زمین کا 6 فیصد بنتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا زراعت میں آگے نکل گئی ہم قیمتی وقت کا ضیاع کرتے رہے، وزیراعظم شہباز شریف
اسی دوران ملک میں زرعی فارموں کی تعداد میں قابلِ ذکر اضافہ ہوا ہے۔ سال 2010 میں فارموں کی تعداد 82 لاکھ تھی، جو اب بڑھ کر ایک کروڑ 17 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ تاہم ہر فارم کا اوسط رقبہ گھٹ کر 6.4 ایکڑ سے کم ہو کر 5.1 ایکڑ رہ گیا ہے۔
رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ پنجاب اب بھی زرعی پیداوار کے میدان میں سب سے آگے ہے، جہاں 50 لاکھ سے زیادہ فارموں پر مجموعی طور پر 3 کروڑ 10 لاکھ ایکڑ زمین کاشت کی جا رہی ہے۔ سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بھی زرعی سرگرمیاں جاری ہیں، مگر ان علاقوں میں زمین کی پیداواری صلاحیت میں واضح فرق پایا جاتا ہے۔
زرعی شماری کی ایک اہم جھلک بارانی علاقوں میں ہونے والی کمی ہے۔ 2010 میں بارانی زمین کا رقبہ 84 لاکھ ایکڑ تھا، جو اب کم ہوکر 49 لاکھ ایکڑ رہ گیا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کی طرف اشارہ کرتی ہے بلکہ آبپاشی کے ناقص نظام کو بھی اجاگر کرتی ہے۔
مزید یہ کہ زرعی شعبے میں مویشیوں کی اہمیت بھی نمایاں ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مویشیوں کی مجموعی تعداد 25 کروڑ سے زیادہ ہے، جن میں گائیں، بھینسیں، بکریاں، بھیڑیں، اونٹ، گھوڑے، خچر اور گدھے شامل ہیں۔ پنجاب اس شعبے میں بھی دیگر صوبوں سے آگے ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق ملک میں گائیں 5 کروڑ 58 لاکھ، بھینسیں 4 کروڑ 77 لاکھ، بکریاں 9 کروڑ 58 لاکھ، بھیڑیں 4 کروڑ 45 لاکھ، اونٹ 15 لاکھ، گھوڑے 5 لاکھ 53 ہزار، خچر 2 لاکھ 96 ہزار اور گدھے 49 لاکھ کی تعداد میں موجود ہیں۔ رپورٹ میں زرعی پیداوار میں کمی کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: موسمیاتی تبدیلی اور زراعت کو درپیش چیلنجز
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے ڈیجیٹل زراعت شماری کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ اگر پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط بنانا ہے تو ہمیں زرعی اصلاحات اور کارپوریٹ فارمنگ کی جانب سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔