اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے کہا ہے کہ 75 سال قبل جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے قائداعظم کی قیادت میں متحد ہوکر ایک وطن بنانے کے لیے عوام کی آزادانہ خواہش کا اظہار کیا۔ پاکستان کے بارے میں قائد کا وژن تھا کہ وہ جمہوری ہو جس کی بنیاد مساوات اور انصاف کے اسلامی اصولوں پر ہو،10 اپریل 1973 ہماری قوم کے ایک آمرانہ .”میں” سے ایک جمہوری “ہم عوام” تک کے سفر کی انتہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں 2 روزہ بین الاقوامی آئینی کنونشن کا آغاز ہو گیا ہے، افتتاحی تقریب میں 17 سے زائد ممالک کے مندوبین شریک ہوئے، غیر ملکی شرکاء میں مختلف ممالک کے اسپیکرز ،ڈپٹی اسپیکرز،بین الاقوامی قانونی ماہرین اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے نمائندے شریک ہیں۔
اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے بین الاقوامی آئینی کنونشن کی افتتاحی تقریب سے اپنے خطاب میں مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ سب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آ ئین کی گولڈن جوبلی کی تقریب میں شریک ہیں، آپ سب کی یہاں موجودگی اس بات کی عکاس ہے کہ آپ آئین و قانون کی پاسداری، جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور عوام کےمنتخب نمائندوں کے ذریعے اختیارات کی منتقلی پر یقین رکھتے ہیں۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ میں اپنے وزیر اعظم جناب شہباز شریف کا خصوصی طور پر مشکور ہوں کہ انہوں نے آئین کے 50 سال کی ایک ماہ تک جاری رہنے والی تقریبات میں ذاتی دلچسپی لی۔ یہ وزیر اعظم کی پارلیمنٹ کی بالادستی پر ان کے غیرمتزلزل یقین کا اظہار کرتا ہے اور پورا ایوان ان کی انتھک کوششوں کو سراہنے میں میرے ساتھ متفق ہے۔
راجا پرویز اشرف نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کا مشکور ہوں، جنہوں نے آئین کے تحفظ اور دفاع کے لیے اپنے غیر متزلزل عزم کا اظہار کیا۔ اس سمت میں آپ کا ہر قدم 1973 کے آئین کے بانی شہید ذوالفقار علی بھٹو اور جمہوریت کی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی اس مقدس دستاویز کو برقرار رکھنے میں دی گئی قربانیوں کی بازگشت ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت جمعیت علمائے اسلام، جناب خالد مقبول صدیقی اور متحدہ قومی موومنٹ کے اراکین جناب خالد مگسی اور بلوچستان کی قابل اور دور اندیش قیادت کا بھی ذاتی مشکور ہوں۔
مزید پڑھیں
اسپیکر قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ75 سال قبل جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے قائداعظم کی قیادت میں متحد ہوکر ایک وطن بنانے کے لیے عوام کی آزادانہ خواہش کا اظہار کیا۔ قائد اعظم نے 1928 میں اپنے مشہور 14 نکات کے ذریعے ہمیں وفاقیت اور صوبائی خودمختاری کا احترام کرنے کا درس دیا اور پھر قائد اعظم نے 10 اگست 1947 کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں اعلان کیا کہ یہ ریاست کا خودمختار اور سپریم ادارہ ہے۔ پاکستان کے بارے میں قائد کا وژن تھا کہ وہ جمہوریت ہو جس کی بنیاد مساوات، انصاف اور منصفانہ کھیل کے اسلامی اصولوں پر ہو۔
راجا پرویز اشرف کا کہنا تھا کہ افسوس کی بات ہے کہ عظیم قائد کا وژن ذاتی اور چھوٹے مفادات کی نذر ہو گیا جہاں جمہوریت چند مراعات یافتہ طبقے کے کلب میں چلی گئی اور عوام کی مرضی ایک ڈکٹیٹر کی خواہشوں کا یرغمال بن گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ1956 اور 1962 کے دو سابقہ آئینوں کی ناکامی اور بالآخر 1971 کے سانحے کی دکھ بھری کہانی کا خلاصہ ہے اور پھر بھی، ایک جمہوری، وفاقی پارلیمانی ریاست کے لیے پاکستانی عوام کی فطری خواہش پھر سے جاگ اٹھی۔ وہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی متحرک قیادت میں راکھ سے اٹھے اور دو سال سے بھی کم عرصے میں پہلی مرتبہ متفقہ آئین حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ 10اپریل 1973 کو ہماری قومی قیادت نے متفقہ طور پر ایک ایسا آئین تحریر کیا جو کسی فرد کی ڈکٹیشن نہیں بلکہ ایک متحدہ وفاق کا مشترکہ عزم تھا۔10 اپریل 1973 ہماری قوم کے ایک آمرانہ .”میں” سے ایک جمہوری “ہم عوام” تک کے سفر کی انتہا ہے، اس لیے 14 اگست 1947 کے بعد 10 اپریل 1973 ہماری قومی تاریخ کا سب سے روشن، چمکدار اور تاریخی لمحہ ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی کے مطابق 10 اپریل 1973 سے 2010 تک اور اب سال 2023 تک، ہم نے ایک طویل سفر طے کیا ہے اور ابھی تک ایک حقیقی اسلامی جمہوری وفاقی پاکستان کے لیے ہمارا سفر ختم نہیں ہوا۔26 بنیادی حقوق کی ضمانت جیسا کہ آئین نے وعدہ کیا ہے، آج بھی روشنی کی تلاش میں ہے۔
راجا پرویز اشرف نے کہا کہ آ ئین کے آرٹیکل 3 جو ریاست کو ہر قسم کے استحصال کے بتدریج خاتمے کے لیے “ہر ایک اپنی صلاحیت کے مطابق اپنے کام کے مطابق” عالمی اصول کا پابند کرتا ہے، بڑی حد تک پورا نہیں ہوا۔ آئین کے 25Aآرٹیکل کو مکمل طور پر پورا کرنے کی یقین دہانی اور کی ضمانت کہ ہر بچے کو لازمی تعلیم کی یقین دہانی ہمارے بامعنی اقدامات کا انتظار کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر جمہوری قیادتوں کو محلاتی سازشوں اور آدھی رات کے حملوں کا یرغمال بنایا جائے تو یہ فاصلہ مزید بڑھتا رہے گا۔ یہ معزز ایوان، خواتین وحضرات، طاقت کا مرکز ہے۔ پارلیمنٹ آئین کا مصنف ہے ۔یہ واحد قانون ساز ادارہ ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی کے مطابق ’عوام کی مرضی پارلیمان سے جنم لیتی ہے اور تمام اداروں کو عوام کے اس خود مختار اور اعلیٰ ادارے کے سامنے جوابدہ ہونا چاہیے۔ یہی ہمارے آئین کی روح ہے اور یہ ایک ہمہ گیر، باہمی احترام، متنوع اور مکالمے پر مبنی پاکستان کا واحد راستہ ہے۔ شہید قائد محترمہ بے نظیر بھٹو کہا کرتی تھیں۔ جمہوریت کوئی پیداوار نہیں ہے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔‘