بحرالکاہل کی گہرائیوں میں نیلی وہیلز کی خاموشی نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایک تازہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے جانور سمجھے جانے والی نیلی وہیلز کی آوازوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، جس کا تعلق ماحولیاتی تبدیلیوں، شدید گرمی کی سمندری لہروں اور خوراک کی کمی سے جوڑا جارہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جھیل سی گہری یہ آنکھیں ایک سمندری مخلوق کی جنہیں جلد ہی نظر لگ گئی
مونٹیری بے ایکویریم ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ماہرین کی تحقیق، جس میں 2015 سے 2021 کے درمیان وہیلز کی آوازوں کو آدھے میل گہرے پانی میں خصوصی آلات (ہائیڈروفونز)کے ذریعے سنا گیا۔ تحقیق کے سربراہ جان ریان، جو سمندری ماحولیاتی ماہر ہیں، نے بتایا کہ ’یہ آلہ انسانی سماعت کی حد سے باہر کی آوازیں بھی ریکارڈ کرتا ہے۔‘
تحقیق کے دوران ماہرین نے مشین لرننگ کی مدد سے مختلف وہیلز کی مخصوص آوازوں کو شناخت کیا۔ ہمپ بیک وہیلز کی آوازیں، جو 9 آکٹووز تک پھیلتی ہیں، مسلسل بڑھتی گئیں، لیکن نیلی وہیلز کی آوازوں میں پہلے اضافہ ہوا، پھر تیسرے سال کے بعد تیزی سے کمی دیکھنے میں آئی۔
2015 کا سال ان مخلوقات کے لیے شدید آزمائشوں کا وقت تھا۔ تحقیق میں انکشاف ہوا کہ اسی سال ایک شدید سمندری گرمی کی لہر “دی بلب” نے پورے نظام کو متاثر کیا، اس گرمی کی لہر نے نیلی وہیلز کی خوراک کرِل (چھوٹی جھینگا نما جاندار) اور مچھلیوں کو ختم کر دیا،مزید یہ کہ اسی سال دنیا کی سب سے بڑی زہریلی ایلجی کی افزائش بھی دیکھی گئی، جس نے سیکڑوں سمندری جانوروں، بالخصوص سی لائنز اور ڈولفنز کو بیمار کر دیا۔
اسی کمی کی وجہ سے نیلی وہیلز کو خوراک کی تلاش میں زیادہ وقت گزارنا پڑا، جس سے ان کے گانے (آوازیں نکالنے) کا وقت کم ہو گیا۔
یہ بھی پڑھیں: جاپانی دریافت آبی مخلوق کا پانڈا سے کیا تعلق ہے؟
مطالعے کے مطابقہمپ بیک وہیلز چونکہ خوراک کے معاملے میں زیادہ لچکدار ہیں، وہ مچھلیاں جیسے انچووی اور سارڈین بھی کھا لیتی ہیں، اس لیے وہ متاثر نہیں ہوئیں، دوسری طرف نیلی وہیلز صرف کرِل پر انحصار کرتی ہیں، اور انہیں خوراک کے لیے لمبے فاصلے طے کرنے پڑے۔
سائنسدانوں نے وہیلز کی آوازوں میں تبدیلی کے دیگر اسباب جیسے آبادی میں کمی یا دیگر سماجی عوامل پر بھی غور کیا، مگر خوراک کی کمی سب سے نمایاں اور مسلسل وجہ ثابت ہوئی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق اس بات کا ثبوت ہے کہ نیلی وہیلز ماحولیاتی تبدیلیوں کے مقابلے میں ہمپ بیک وہیلز کے مقابلے میں زیادہ حساس اور کمزور ہیں۔
مستقبل میں سمندری گرمی کی لہروں کے زیادہ بار، زیادہ شدت اور لمبے دورانیے کے ساتھ آنے کی پیش گوئیاں کی جارہی ہیں، جو نیلی وہیلز سمیت دیگر سمندری حیات کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتی ہیں۔