امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب ایمبیسیڈر مسعود خان کا کہنا ہے کہ بھارت کی اسٹریٹجک خودمختاری اب پریشان خیالی میں بدل چکی ہے اور وہ اس گھبراہٹ میں کسی پناہ کی تلاش میں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نیتن یاہو کا اعتراف: اسرائیلی اسلحہ دیکر ’آپریشن سندور‘ میں بھارت کی مدد کی
وی نیوز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دنیا کے خطوط بدل رہے ہیں اور بھارت کو نہیں معلوم کہ اس کا نیا کردار کیا ہو گا جبکہ امریکی صدر بھارت کو زیر کرنا چاہتے ہیں تاکہ اسے مذاکرات کی میز پر لایا جائے۔
ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ ہمیں بھارت کی جانب سے چین کی ساتھ جو ان کی بات چیت ہوتی ہے اس کا تجزیہ کرنا چاہیے اور یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ پاکستان کے لیے جو نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں وہ کس طرح اُن سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکا نے پچھلی 2 دہائیوں میں بھارت کو تیار کیا تھا کہ وہ چین کا عسکری اور تجارتی طور پر مقابلہ کرے گا لیکن بھارت مکمل طور پر اس میں ناکام ہوا اور بھارت کی نیت بھی نہیں تھی۔ اس کے برعکس چین، بھارت کا بہت بڑا تجارتی شراکت دار ہے جس میں زیادہ تجارتی فائدہ چین حاصل کرتا ہے۔
مزید پڑھیے: عالمی سطح پر بھارت کا دوغلا پن بے نقاب، بھارت کی ہزیمت نے نئی شکل اختیار کر لی
بھارت کی جانب سے کئی سال چین کے خلاف مخاصمانہ روّیہ اختیار کرنا اور گزشتہ روز بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے مجوزہ دورۂ چین کا اعلان، اس کے ممکنہ محرکات کیا ہو سکتے ہیں اس بارے میں بات کرتے ہوئے ایمبسیڈر مسعود خان نے کہا کہ نریندر مودی ایک بار پہلے چینی صدر سے برکس اجلاس میں ملاقات کر چکے ہیں اور دوسری بار ملنے کا موقع شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کے موقعے پر پیدا ہوا تھا، لیکن حالات کچھ ایسے بن گئے کہ اب مودی نہ صرف گھبراہٹ کا شکار ہیں بلکہ امریکا کے اقدامات سے سٹپٹا بھی گئے ہیں۔
’ڈی جی آئی ایس پی آر کا بیان سن کر بڑی خوشی ہوئی‘
ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ مجھے گزشتہ روز ڈی جی آئی ایس پی آر کا بیان سن کر بڑی خوشی ہوئی۔ بھارت نے پاکستان پر حملہ کر کے کہا کہ یہ اُس کا نیو نارمل ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم بھارت کے مشروقی علاقوں پر حملہ کریں گے۔ وہ علاقے کیا ہیں، اروناچل پردیش، میزورام، تری پورہ، آسام، منی پور۔ یہ سارے وہ علاقے ہیں جہاں ہندوستان کے خلاف بغاوت ہے۔ لیکن اگر آپ خلیج بنگال سے نیچے جائیں تو بھارت کے 2 جزائر انڈیمان اور نکوبار ہیں۔ یہاں بھارت کے ایٹمی اور میزائل کے اثاثے موجود ہیں۔ جبکہ ہمارا شاہین 3 میزائل وہاں تک مار کر سکتا ہے۔
’بھارت کبھی ماسکو کبھی چین کی طرف بھاگتا ہے‘
ایمبیسڈر مسعود خان نے کہا کہ اس وقت بھارت جو کہ خود کو خطے کی سپرپاور سمجھتا تھا، گھبراہٹ میں کبھی ماسکو اور کبھی چین کی طرف بھاگتا ہے اور وہ دنیا میں ملکوں کے اتحاد کی صورت کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ کسی پلیٹ فارم پر ذکر بھی ہوا ہے کہ آنے والے وقت میں ایک طرف امریکا اور اس کے اتحادی جبکہ دوسری طرف روس چین اور بھارت ہونگے۔ اس سے قبل جب بھارتی وزیرِخارجہ جے شنکر نے چین کا دورہ کیا تھا تو انہوں نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ چین اور بھارت خطے کی بڑی قوّتیں ہیں اور کوئی تیسری قوت اس اتحاد کو منقطع نہیں کر سکتی۔ تیسری قوّت سے مراد امریکا تھا۔ اسی دورے کے دوران انہوں نے اپنے سرحدی تنازعات ختم کرنے کی بات بھی کی تھی اور گلوان واقعے کو بھی دبا دیا تھا اور تجارتی معاشی تعلقات بڑھانے کی کوشش بھی کی۔
کیا بھارت امریکا کا دباؤ برداشت کر سکتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ جب گوگل، مائیکروسوفٹ اور ایپل بھارت سے سرمایہ نکال کے امریکا میں سرمایہ کاری کرتے ہیں تو اس سے بھارت متاثر ہوتا ہے۔ امریکا اور مغربی یورپ نے بھارت سے قبل مصنوعات بنانے کے لیے چین کا انتخاب کیا تھا۔ لیکن جب انہیں لگا کہ وہ تو اس میں اجارہ داری قائم کر رہے ہیں تو انہوں نے بھارت کا رخ کیا۔ اب اگر بھارت سے سرمایہ کاری کو نکالا جائے گا تو اس سے بھارتی معیشت متاثر ہو گی۔ اگر امریکا نے بھارت کے سر سے ہاتھ اٹھا لیا تو مغربی یورپ کے ممالک بھی ہاتھ کھینچ لیں گے۔ امریکی صدر بھارت کو زیر کرنا چاہتے ہیں تاکہ اسے مذاکرات کی میز پر لایا جا سکے۔
کیا امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات کے باعث چین کے ساتھ ہمارے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ ہم سنہ 1960 سے دونوں ملکوں کے ساتھ متوازن تعلقات قائم رکھتے چلے آئے ہیں اور امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات کے باعث چین کے ساتھ تعلقات متاثر نہیں ہوں گے۔ اور امریکا بھی چین کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت کو سمجھتا ہے اور چین بھی سمجھتا ہے کہ اگر پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات خراب ہوں گے تو اس کے پڑوس میں حالات خراب ہوں گے۔
کیا موجودہ صورتحال مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے موزوں ہے؟
اس سوال کے جواب میں ایمبیسیڈر مسعود خان نے کہا کہ اس وقت مسئلہ کشمیر بہت الجھ گیا ہے کیونکہ بھارت کسی بھی صورت اس بارے میں بات کرنے کو تیار نہیں اور نہ ہی وہ کسی کی ثالثی کو مانتا ہے۔ لیکن مسئلہ کشمیر ایک بار پھر بین الاقوامی ریڈار پر آیا ہے اقوام متحدہ اور دیگر کئی عالمی فورمز پر اس بارے میں بات ہوئی ہے۔ بھارت کے لیے مشورہ یہی ہے کہ وہ مذاکرات کی میز پر آئے۔