وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی حکمت عملی کے نتیجے میں صوبہ 31 سال پرانے ’کموڈٹی قرض‘ کے بوجھ سے آزاد ہوگیا، جو گندم کی مہنگی خریداری کے باعث پیدا ہوا تھا۔
رپورٹ کے مطابق 5 اگست 2025 کو نیشنل بینک کو 13 ارب 90 کروڑ روپے کی آخری قسط ادا کرکے کمرشل بینکوں کا تمام کموڈٹی قرض مکمل طور پر ختم کردیا گیا۔ اس سے قبل ادائیگی میں تاخیر کے باعث پنجاب حکومت کو ہر ماہ 50 کروڑ روپے سود کی مد میں ادا کرنا پڑتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب حکومت کی گندم کے کاشتکاروں کے لیے 100 ارب کے بلاسود قرض اور ٹارگٹڈ سبسڈی کی تجویز
گندم کی اوپن مارکیٹ ریٹ سے زیادہ قیمت پر خریداری نے مارکیٹ کا توازن بگاڑ دیا تھا، جس کے نتیجے میں آٹا اور روٹی کی قیمتیں تیزی سے بڑھ گئیں اور عوام کو مہنگائی کا براہ راست سامنا کرنا پڑا۔
رپورٹ کے مطابق جون 2022 میں یہ صوبائی گردشی قرض 630 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا، جبکہ 2024 تک اس میں اضافہ ہوکر 1.15 کھرب روپے ہو جاتا، جو صوبے کے سالانہ بجٹ کا قریباً 35 فیصد بنتا۔
محکمہ خوراک ہر سال 35 سے 40 لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدتا تھا، مگر اس پالیسی کا فائدہ صوبے کے 70 لاکھ کسانوں میں سے صرف 2 سے 4 لاکھ کسانوں کو ملتا، جبکہ ناجائز منافع خور مہنگی خریداری سے اربوں روپے کماتے رہے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب کا گزشتہ 30 سال کا قرضہ صفر ہوگیا ہے، وزیراعلیٰ مریم نواز
وزیراعلیٰ مریم نواز نے یہ قرض اتارنے کے لیے جرات مندانہ منصوبہ بنایا، جس کے تحت عام سبسڈی کے بجائے تمام کسانوں اور زرعی شعبے کی مجموعی معاونت پر توجہ دی گئی۔ اس حکمت عملی کے تحت صوبائی بجٹ سے مجموعی طور پر 761 ارب روپے ادا کیے گئے، جن میں 733 ارب روپے اصل قرض اور 28 ارب روپے سود شامل تھے۔