آم، سنہری سفارتکار جو تعلقات میں مٹھاس گھولتا ہے

اتوار 10 اگست 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

برصغیر میں جب ہر سال شدید گرمی اور حبس کا موسم آتا ہے تو باغات میں ایک ایسا پھل پکنے لگتا ہے جو صرف ذائقے اور خوشبو کا تحفہ نہیں بلکہ تعلقات میں مٹھاس بھرنے کا پیغام بھی لاتا ہے۔ آم کو ’پھلوں کا بادشاہ‘ کہا جاتا ہے، مگر اس کا کردار ایک خاموش سفارتکار کا بھی ہے جو سیاست کی زبان بند ہونے پر بھی بات جاری رکھتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھمبر آزاد کشمیر کے مشہور کھٹے میٹھے آم، پیداوار میں کمی کیوں؟

ساون کے آغاز کے ساتھ ہی آم کے ٹوکرے اور پیٹیاں خاموشی سے نہ صرف بازاروں بلکہ سفارتخانوں، وزارتِ خارجہ، ایوانِ صدر اور وزرائے اعظم کی رہائش گاہوں تک پہنچنا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ صرف تحفے نہیں بلکہ روایتی پیکنگ میں لپٹے خوشبودار امن کے پیغام ہوتے ہیں۔

آم کی سفارتکاری کوئی نئی روایت نہیں بلکہ دہائیوں سے جنوبی ایشیا اور دنیا میں نرم قوت کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔ 1955 میں بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے سرد جنگ کے دوران سوویت رہنماؤں کو الفانسو آم بھیجے تاکہ ماسکو سے تعلقات مضبوط کیے جا سکیں۔

 1968 میں پاکستان کے وزیر خارجہ میاں ارشد حسین نے چین کے چیئرمین ماؤ زے تنگ کو سندھڑی آم پیش کیے، جنہوں نے ملک میں مشہور ’مینگو کلٹ‘ کو جنم دیا اور یہ پھل ثقافتی انقلاب میں مزدور طبقے کی محبت کی علامت بنا۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان کی رس بھری چیری دنیا بھر میں مشہور، برآمد کرنے کے لیے جدید اقدامات

1981 میں پاک بھارت کشیدگی کے دوران صدر ضیاالحق نے انور رتول آم بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو بھجوائے، جسے سفارتی برف پگھلانے کی ایک نرم کوشش سمجھا گیا۔

 2022 میں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے ایک میٹرک ٹن امرپالی آم بھارتی صدر رام ناتھ کووند اور وزیر اعظم نریندر مودی سمیت دیگر رہنماؤں کو تحفے میں بھیجے، جس سے خطے میں دوستی کا پیغام مضبوط ہوا۔

ماہرین کے مطابق آم کی کاشت برصغیر میں 4 ہزار سال سے جاری ہے۔ بدھ بھکشوؤں نے 4ویں صدی قبل مسیح میں آم کے باغات لگائے، جبکہ مغل بادشاہوں نے شاہی باغات میں نایاب اقسام کی افزائش کی۔ یہ آج بھی ایسا مشترکہ ورثہ ہے جو ان ممالک کو جوڑتا ہے جن کے درمیان اکثر سیاسی اختلافات رہتے ہیں۔

آم صرف ایک پھل نہیں بلکہ ایک موسم اور ایک یاد ہے۔ یہ گرمیوں کی دوپہریں، چھٹیاں، آم کا رس ٹپکانا اور ساون کی بارش میں خاندانی میل جول کا استعارہ ہے۔ آم دینا گویا اپنی خوشی، اپنی شناخت اور اپنی زمین کی فراوانی بانٹنا ہے۔

آم کے طبی فائدے

آم وٹامن سی، وٹامن اے، فائبر اور اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہے، جو مدافعتی نظام کو مضبوط، آنکھوں اور جلد کو تندرست اور ہاضمے کو بہتر بناتے ہیں۔ ایک کپ آم تقریباً 70 فیصد روزانہ کی وٹامن سی کی ضرورت پوری کرتا ہے۔

آم کی اقسام

دنیا بھر میں آم کی سینکڑوں اقسام موجود ہیں، مگر چند اپنی خوشبو، ذائقے اور بناوٹ کے باعث سب سے زیادہ پسند کی جاتی ہیں۔

الفانسو (بھارت) زعفرانی رنگت، ریشمی ساخت اور خوشبودار ذائقہ رکھتا ہے۔

سندھڑی (پاکستان) بڑی جسامت اور رس بھری ہونے کے باعث موسم کی پہلی مقبول قسم ہے۔

 نم ڈوک مائی (تھائی لینڈ) پتلی، سنہری اور تیز خوشبو والی ہوتی ہے۔

کیٹ (مصر/امریکا) ہری چھال، کھٹا میٹھا اور بغیر ریشوں کے ہوتا ہے۔

میازاکی (جاپان) گہری سرخی، نہایت میٹھی اور نایاب قسم ہے۔ جاپانی میازاکی آم دنیا کے سب سے مہنگے مانے جاتے ہیں جن کی قیمت ایک جوڑے کی 4 ہزار امریکی ڈالر تک جا سکتی ہے اور یہ محض پھل نہیں بلکہ ایک عیش و عشرت کا نشان ہیں۔

زیادہ آم کی پیدوار والے ممالک

اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے مطابق دنیا کے بڑے آم پیدا کرنے والے ممالک میں بھارت، چین، تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور پاکستان شامل ہیں، جو دنیا کی 75 فیصد سے زائد پیداوار فراہم کرتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق جب پالیسیوں میں جمود آ جائے اور سرحدیں بند ہوں، آم پھر بھی دھوپ میں پکے، تنکوں میں لپٹے اور خوشبو میں بسے پیغام کے ساتھ دلوں تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ وہ سفارتکار ہے جو سخت گیر سیاسی ماحول میں بھی سب سے نرم اور میٹھا رابطہ قائم کرتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp