پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں کل بروز منگل اسلام آباد ہائی کورٹ کی حدود سے گرفتار کیا گیا۔
واضح رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان اداروں کے خلاف بیانات اور قومی اسمبلی کے رکن محسن شاہنواز رانجھا کو قتل کی دھمکیاں دینے کے مقدمے میں ضمانت میں توسیع کے لیے لاہور سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں میں پیشی کے لیے آئے تھے۔
سابق وزیراعظم کی گرفتاری کے بعد ملک گیر احتجاجی مظاہروں میں نہ صرف مرد حضرات شامل تھے بلکہ خواتین بھی ان احتجاجی مظاہروں میں پرجوش انداز میں شریک تھیں۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے خواتین نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ جہاں بہت سی خواتین شدید غصے اورغم میں مبتلا ہیں تو وہیں کچھ خواتین اس کو قانونی گرفتاری قرار دے رہی ہیں۔
34 سالہ عالیہ نے عمران خان کی گرفتاری کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی یوں اچانک گرفتاری سمجھ سے بالاتر ہے۔ جس طرح سے عمران خان کو گرفتار کیا گیا ’اور ہائیکورٹ میں توڑ پھوڑ کی گئی، وہ ایسے معلوم ہورہا تھا جیسے دہشتگرد گھس آئے ہوں‘
‘عمران خان پر فحاشی کا کیس بھی ضرور بننا چاہیے’
عالیہ نے مزید کہا کہ عمران خان پر ایک کیس فحاشی کا بھی بننا چاہیے کیونکہ وہ ان تمام لوگوں کو ننگا کر کے گیا ہے جو خود کو جمہوریت، آئین اور قانون پسند سمجھتے تھے۔ تاہم انہوں نے مایوس بھرے لہجے میں کہا: ’عمران خان واحد لیڈر ہیں جنہوں نے ہمیشہ ملک اورعوام کا سوچا اور اس ملک کو ڈاکوؤں اور چوروں سے آزاد کروانے کی پوری کوشش کی، مگر بدقسمتی سے انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ جو ملک کا بہت بڑا نقصان ہے‘۔
افشاں ملک ایک ورکنگ ویمن ہیں، انہوں نے عمران خان کی گرفتاری کے متعلق اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ عمران خان کی گرفتاری پر بہت غم زدہ ہیں۔ ان کے مطابق وہ ہر نماز کے بعد دعا کر رہی ہیں کہ عمران خان خیریت سے ہوں اور جلد از جلد رہا ہوجائیں۔
شیروں کی طرح گرفتاری دی ہے
افشاں کہتی ہیں کہ وہ غم زدہ تو ہیں مگر اس کے باوجود اس بات پر بہت خوش ہیں کہ عمران خان شاید واحد انسان ہیں جنہیں گرفتار ہونے سے قطعاً کوئی خوف نہ تھا ۔ ’شیروں کی طرح بیٹھا مسکرا رہا تھا اور شیروں کی طرح ہی گرفتاری دی جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ بس! یہی دعا ہے کہ جلد از جلد رہا ہو جائیں کیونکہ وہ اپنی وجہ سے نہیں بلکہ اس ملک کی خاطر گرفتار ہوئے ہیں‘۔
ملک گیر احتجاجی مظاہروں کے متعلق پوچھے گئے ایک سوال پر کہا’ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ لوگ بغیرکسی کال کے سڑکوں پرعمران خان کی محبت میں نکلے‘۔
‘فوج کا کام بارڈر پر ہے نہ کہ ملکی سیاست میں’
افشاں نے بات کو بڑھاتے ہوئے کہا ’عمران خان کو فوج نے گرفتار کیا ہے۔ اسی لیے کارکنان نے فوجی ہیڈکوارٹرز کے باہر احتجاج کیا۔ کہتی ہیں کہ فوج کا تو سیاست میں کوئی کام نہیں ہے، فوج کا کام بارڈرز پر ہے۔‘
حمیرا ریاست رندھاوا ایک اسکول ٹیچر ہیں جہنوں نے عمران خان کی گرفتاری پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غدار سکون سے بیٹھے ہیں اور جو اس ملک کے ساتھ مخلص ہے، اسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ کہتی ہیں مگر عمران خان پُر سکون اس لیے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ بالکل سیدھی راہ پر ہیں۔ ایسا بندہ ان گرفتاریوں سے نہیں گھبراتا‘۔
‘رینجرز کی وردی میں حکومتی لوگ تھے’
حمیرا رندھاوا کہتی ہیں کہ فوج کے ساتھ ہمارے کوئی دشمنی نہیں ہے اور ہائیکورٹ میں جس طرح رینجرز کی وردی میں حکومتی افراد نے توڑ پھوڑ کی، ایسی تربیت فوج میں نہیں دی جاتی۔ ’پی ٹی آئی کی فوج کے ساتھ کوئی لڑائی نہیں ہے۔ ہماری فوج ہماری محافظ ہے۔‘ انہوں نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں فیصلے لکھ دیے جاتے ہیں۔ اور یہ بالکل قابل مذمت ہے کہ عمران خان کو بغیر بتائے گرفتار کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا ’وہ کوئی غدار تھوڑا تھا جو اس کو اس طرح گرفتار کیا گیا‘
ایک سوال پر حمیرا نے کہا ’ جب کوئی ایکشن ہوگا تو عوام اس کا ردعمل بھی تو دے گی، انہوں نے اکسایا ہے، توڑ پھوڑ اور جلاؤ، گھیراؤ پر اور اس کے بعد کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کارکنان نے غلط کیا ہے‘
‘خوب پھینٹی لگنی چاہیے’
25 سالہ ثمرا ایم فل کی طالبہ ہیں، انہوں نے ’وی نیوز‘ کو عمران خان کی گرفتاری سے متعلق کہا کہ یہ ایک قانونی گرفتاری ہے۔ اور اس وقت ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی بہت ضروری ہے۔
ثمرا کہتی ہیں کہ عمران خان مدینہ کی ریاست صرف باتوں کے ذریعے ہی بنانا چاہتے تھے۔ انہوں نے مدینہ کی ریاست کو تشکیل دینے کا عملی مظاہرہ کبھی نہیں کیا۔ ’جس طرح ملک بھر میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد احتجاجی مظاہرے ہوئے، توڑ پھوڑ کی گئی، درختوں اور گاڑیوں کو جلایا گیا، یہ سب پہلے سے طے شدہ تھا، اپنے سپورٹرز کو احتجاجی کال دینے کا بندوبست عمران خان نے کر رکھا تھا اور ایسی کالز انہوں نے اپنے کارکنان کو ہر اس موقع پر دیں جب انہیں یہ محسوس ہوا کہ انہیں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیشہ عمران خان کے کارکنان نے ملک کا نقصان ہی کیا ہے۔‘
ایک سوال پر ثمرا کا کہنا تھا کہ عمران خان کا بھی احتساب ویسا ہی ہونا چاہیے جیسا اب تک حکمرانوں کا ہوتا آیا ہے۔ ’میں تو چاہتی ہوں کہ انہیں خوب پھینٹی لگنی چاہیے۔ تاکہ ان کا لاڈلہ پن سارا نکل جائے‘
‘یہ انوکھا تھوڑا ہی ہے جو گرفتار ہوا’
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے سائرہ نے کہا کہ عمران خان پہلے سیاست دان نہیں ہیں جو گرفتار ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے بھی بہت سے سیاست دان گرفتار ہوئے ہیں۔ اگر کوئی قانونی طور پر گرفتار ہو رہا ہے تو یہ خوشی کی بات ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔
سائرہ کہتی ہیں ’عمران خان کی گرفتاری بہت پہلے ہونی چاہیے تھی مگر یہ خوش آئند بات ہے کہ اب ہو چکی ہے۔ کیونکہ اس سے قبل متعدد بار عمران خان کی گرفتاری کی صورتحال پیدا ہوئی، اور وہ صورتحال قانونی بھی تھی مگر گرفتاری نہیں ہوسکی جس سے ملک میں قانون یکساں نہ ہونے کا تاثر پیدا ہورہا تھا، یہ ایک نہایت خطرناک بات تھی‘