بھارت کے یومِ آزادی 15 اگست سے قبل مقبوضہ جموں و کشمیر میں سکیورٹی نگرانی غیر معمولی حد تک سخت کر دی گئی ہے، جہاں لوگوں کو اس دن کی تقریبات میں شرکت پر مجبور کرنے کے لیے کثیر سطحی تلاشی مہمات، ’ایریا ڈومینیشن‘ مشقیں، اور صفائی کے نام پر سکیورٹی آپریشن جاری ہیں۔
آزادی کا دن، خوف کا ہتھیار
مقبوضہ وادی میں بھارت کے لیے آزادی کا دن، کشمیری عوام کے لیے خوف اور جبر کا ہتھیار بن چکا ہے۔ مودی حکومت نے ڈرونز، سی سی ٹی وی کیمروں اور ہزاروں نیم فوجی اہلکار تعینات کر کے مقامی آبادی کو قیدیوں جیسا سلوک سہنے پر مجبور کر دیا ہے۔

کشمیری عوام کا سوال: قابض کا جشن ہم کیوں منائیں؟
مقبوضہ جموں و کشمیر کے مقامی لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ جب وہ خود بھارتی تسلط سے آزاد نہیں تو قابض قوت کا جشن آزادی کیوں منائیں؟ بھارتی یومِ آزادی کی تقریبات میں شرکت کو مقامی لیفٹیننٹ گورنر نے لازمی قرار دے دیا ہے تاکہ دنیا کو یہ تاثر دیا جا سکے کہ کشمیری قوم بھارت کا حصہ ہے، لیکن کشمیری عوام اس مسلط شدہ بیانیے کو مسترد کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے بھارت کے یوم آزادی سے قبل مقبوضہ کشمیر میں فوجی محاصرہ مزید سخت
سخت سکیورٹی، عوامی زندگی مفلوج
شہری علاقوں اور حساس مقامات پر روڈ بلاکس، سرچ آپریشنز اور مسلح ناکے قائم ہیں، جن کا مقصد عوام کو خوفزدہ کر کے خاموشی اختیار کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ رات کے اوقات میں مزید سخت ناکہ بندی، کرفیو اور نگرانی عام زندگی کو مفلوج کر دیتی ہے۔

جبر کے سائے میں جشن
کشمیری عوام کو آزادی سے محروم کرنے والے ملک کے جشن میں شامل ہونے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ بھارتی حکومت کے نام نہاد سکیورٹی اقدامات دراصل عسکری طاقت کے مظاہرے اور ہر مخالف آواز کو دبانے کا ذریعہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیے بھارت: کشمیر کے یوم شہدا پر وزیر اعلیٰ بھی مقید
آزادی کا تاثر، غلامی کی حقیقت
بھارت دنیا میں آزادی کا جشن مناتا ہے، مگر مقبوضہ جموں و کشمیر میں حقیقت یہ ہے کہ لوگ جبر، نگرانی اور قابض طاقت کی مسلط کردہ آزادی کے رسم و رواج نبھانے پر مجبور ہیں۔ اس تمام تر عمل کا پیغام واضح ہے:
’قبضے کے خلاف مزاحمت کی قیمت خوف، جبر اور اجتماعی سزا ہے۔‘














