عمران خان کی گرفتاری اور پختون خوا میں پرتشدد ردعمل

جمعرات 11 مئی 2023
author image

عقیل یوسفزئی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

9 مئی 2023 کو سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے ان پر نیب میں چلنے والے کرپشن کے ایک کیس القادر ٹرسٹ لینڈ سکینڈل کے ایک مرکزی کردار کے طور پر گرفتار کیا گیا تو پارٹی کارکنوں نے ملک بھر خصوصاً پنجاب اور خیبر پختون خوا میں سخت ردعمل کا اظہار کیا.

اگرچہ خیبرپختون خوا میں احتجاج کرنے والے کارکنوں کی تعداد توقع سے کم رہی، پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وزرا اور ممبران اسمبلی سمیت اہم قائدین منظر نامے سے غائب رہے تاہم کارکنوں نے بہت بڑی تعداد میں سرکاری تنصیبات اور املاک کو نقصان پہنچایا۔ اس نقصان کا مرکز صوبائی دارالحکومت پشاور رہا جہاں صوبائی حکومت کے ترجمان فیروز جمال کاکاخیل نے ہنگاموں سے قبل ایک بیان جاری کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ کسی کو املاک کو نقصان پہنچانے اور بدامنی پھیلانے کی قطعی طور پراجازت نہیں دی جائے گی تاہم جب کارکنوں نے حساس مقامات سمیت جتھوں کی صورت میں شہر کو یرغمال بنایا تو ان کا راستہ روکنے کے لیے وہ انتظامات دیکھنے کو نہیں ملے جس کی ضرورت تھی یا جس کا اعلان کیا گیا تھا.

یہ رویہ صرف پشاور تک محدود نہیں رہا بلکہ مردان، سوات، باجوڑ، خیبر، کوہاٹ، دیر اور متعدد دوسرے اضلاع میں بھی سرکاری املاک نشانہ بنیں اور ان املاک میں عسکری عمارتوں کو بطور خاص نشانہ بنایا گیا. مردان اور بعض دیگر علاقوں میں پاک فوج اور اس کی قیادت کے خلاف باقاعدہ نعرے بازی بھی کی گئی جبکہ مردان کینٹ میں بعض فوجی ہیروز کے نصب مجسمے بھی اکھاڑے گئے.

ریڈیو پاکستان پشاور کی فرنٹ پر اس کی حدود میں بنائے گئے چاغی پہاڑ کے ماڈل کو سرعام پولیس کی موجودگی میں نذرآتش کیا گیا جبکہ فرنٹیئر کور کے ہیڈ کوارٹر پر بھی کارکن چڑھ دوڑے جو کہ تاریخی قلعہ بالاحصار میں واقع ہے.

اس تمام احتجاج کے دوران کارکنوں کے غصے کا محور پاکستان کے عسکری ادارے اور اعلیٰ افسران رہے جن کے خلاف مسلسل نعرے لگائے گئے جبکہ کارکنوں نے 2نیوز چینلز کی گاڑیوں اور عملے پر بھی حملے کیے جس کے نتیجے میں ایک رپورٹر زخمی بھی ہوا.

اس تمام احتجاج کے دوران عجیب صورت حال اس وقت پیش آئی جب مشتعل کارکنوں نے پشاور میں اپنے ہی قائدین کو گھیرے میں لے کر نہ صرف ان کے خلاف نعرے لگائے بلکہ انہیں ’لوٹے‘ اور ’بھگوڑے‘ جیسے ناموں سے بھی پکارا. سابق گورنر شاہ فرمان نے جب پشاور میں کارکنوں کو ریڈ زون میں داخل ہونے اور توڑ پھوڑ سے منع کیا تو انہیں اداروں کا ایجنٹ قرار دے کر وہاں سے بھگا دیا گیا۔

سابق صوبائی وزیر اور پارٹی کے صوبائی ترجمان شوکت علی یوسفزئی کا تو بوجوہ پشاور ہی میں باقاعدہ گھیراؤ کرتے ہوئے ان کے کپڑے پھاڑ دیئے گئے. کارکنوں کے ایک ہجوم نے کسی بات پر انہیں تشدد کا نشانہ بنانا شروع کیا جس کے باعث ان کی سانس پھولنے لگی اور انہیں نیم بے ہوشی کے عالم میں ہجوم سے بہت تکلیف کے عالم میں نکال دیا گیا۔ اگر مزید دیر ہوجاتی تو ان کی زندگی خطرے میں پڑنے کا خدشہ تھا۔

غالباً اسی پرتشدد طرزِ عمل کا نتیجہ تھا کہ پشاور سمیت اکثر شہروں میں پارٹی کے عہدیداروں نے خوف کے باعث مظاہروں میں شرکت سے گریز کیا جس پر کارکنوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے ان کی زبردست ’چھترول‘ بھی کی۔

اس تمام صورتحال سے پختون خوا پولیس کیوں لاتعلق رہی؟ اس ضمن میں بعض حکام نے رابطے پر بتایا کہ پولیس فورس پر تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے ایک گروپ کی شکل میں ایک بڑے حملے کی اطلاعات کئی دنوں سے زیرِ گردش تھیں۔ اس ضمن میں ایک تھریٹ الرٹ بھی جاری کی گئی تھی. پولیس نے اس تناظر میں کسی متوقع حملے سے بچنے کے لیے پہلے کی طرح ایکشن لینے کے لیے کھلے عام باہر نکلنے سے گریز کیا تاہم حکام نے دعویٰ کیا کہ اس کے باوجود پولیس فورس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے اور انہیں ریڈ زون میں داخل ہونے نہیں دیا۔ 9 مئی کی رات تک پولیس نے تقریباً 100 مظاہرین کے خلاف مقدمات درج کیے اور درجنوں کی گرفتاری کا دعویٰ بھی کیا.

اس تمام تر احتجاج اور تشدد کا خلاصہ کچھ یوں بنا کہ عمران خان پر ہاتھ ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ ہی نے ڈالا جس کے بنیادی اسباب میں عسکری قیادت اور اداروں کے خلاف عمران خان اور ان کی پارٹی کا جارحانہ بیانیہ اور پروپیگنڈا تھا۔ دوسرا یہ کہ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق اس انتہائی اقدام کے پیچھے پڑوسی ملک چین کے وہ ’تحفظات‘ تھے جن کا اظہار چینی قیادت نے سول حکمرانوں کے علاوہ عمران خان کی گرفتاری سے چند ہفتے قبل آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے دورہ چین اور اس کے بعد چینی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان کے دوران چینی قیادت کی جانب سے سی پیک اور دوسرے معاملات کے تناظر میں کیا گیا تھا.

اس سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ تحریک انصاف عمران خان کی ذات تک محدود پارٹی ہے اور اگر وہ نہ ہو تو کارکن کسی اور کو نہ تو قابل اعتماد سمجھتے ہیں اور نہ ہی کسی اور کو لیڈر سمجھتے ہیں. اسباب، نتائج جو بھی ہوں، گرفتاری کے بعد جنگ زدہ پختون خوا میں مشتعل کارکنوں نے جو ردعمل عسکری قیادت اور اداروں کے خلاف دکھایا وہ پختون خوا کے مخصوص حالات کے تناظر میں اس حوالے سے کافی تشویش ناک ہے کہ صوبے کو پہلے ہی سے تحریک طالبان پاکستان کے مسلسل حملوں کا سامنا رہا اور اس کے ردعمل میں فورسز کی کارروائیاں بھی بڑھتی دکھائی دیں. دوسری طرف ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو بعض مقبول پشتون قوم پرست رہنماؤں اور گروپوں کی سرگرمیوں کی شکل میں ایک لبرل مزاحمت کا بھی سامنا ہے.

اسی تناظر میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ پختون خوا کے سیکورٹی معاملات مزید پیچیدہ ہوسکتے ہیں۔ سیاسی کشیدگی، تصادم سے مستقبل میں حملہ آور قوتیں مزید فوائد اٹھانے کی یقینی کوششیں کرسکتی ہیں.

پشاور میں بدھ کے روز جس نوعیت کا تشدد دیکھنے کو ملا اس کی اس شہر کی حالیہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ کوشش کی گئی کہ اس جنگ زدہ صوبے بالخصوص پشاور کو جلایا جائے۔ تحریک انصاف کے نقاب پوش کارکنوں نے اسلحہ اور ڈنڈوں کے ذریعے جی ٹی روڈ پر ریڈ زون کے کچھ ہی فاصلے پر واقع ریڈیو پاکستان کی تاریخی عمارت میں گھس کر اسے آگ لگادی جس کے نتیجے میں نہ صرف پوری عمارت کا ریکارڈ جل گیا بلکہ عمارت میں موجود اے پی پی (نیوز ایجنسی) کے دفتر اور آڈیٹوریم کو بھی جلادیا گیا.

اسی دوران قلعہ بالاحصار پر مسلسل فائرنگ کی گئی اور قلعہ کے سامنے سے گزرنے والی ایدھی فاونڈیشن کی ایمبولینس سے ڈرائیور اور مریض کو نکال کر نذر آتش کیا گیا. دوسرے ہجوم نے ہشتنگری پشاور میں اسلحہ کی ایک دکان کو لوٹ لیا اور اسی اسلحے سے پولیس پر فائرنگ شروع کردی. ایسا لگا جیسے شہر میں خانہ جنگی شروع ہوگئی ہو. اس صورت حال کو مزید بگڑنے اور پھیلنے سے بچانے کے لیے پولیس کو سخت رویہ اختیار کرنا پڑا جس کے نتیجے میں دو طرفہ جھڑپوں اور فائرنگ کے نتیجے میں تحریک انصاف کے 3 کارکن ایک راہگیر جاں بحق ہوگئے جبکہ 5 پولیس افسران اور اہلکاروں سمیت تقریباً 25 افراد زخمی ہوئے.

مزید نقصان سے بچنے کے لیے صوبائی حکومت نے بدھ کی دوپہر کو فوج کو طلب کیا جس کے نتیجے میں مخدوش صورت حال پر قابو پانے کی کوشش کی گئی. دوسری طرف سوات اور پشاور سے درجنوں گاڑیاں اسلام آباد کی طرف روانہ کی گئی جن کا راستہ روکنے کے لیے موٹر وے پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ مجموعی طور پر اس صورتحال نے صوبے کے عوام کو بہت تشویش میں مبتلا کیا کیونکہ صوبے کو پہلے ہی سے بدامنی اور حملوں کا سامنا تھا اور اس کشیدگی ، پرتشدد واقعات نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp