اسلام آباد میں ایک تحقیقاتی ادارے، ساوتھ ایشین اسٹریٹیجک اسٹیبلٹی انسٹیٹیوٹ (ساسسی) یونیورسٹی کے زیر انتظام اس ہفتے افغان رہنماؤں اور خواتین کارکنوں کا مکالمہ منعقد ہوگا جس میں خطے میں امن و استحکام پر گفتگو کی جائے گی۔ منتظمین کے مطابق یہ کانفرنس 25 اور 26 اگست کو منعقد ہوگی۔
ساسسی کی چیئرپرسن اور ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ماریہ سلطان نے بتایا ہے کہ یہ پہلا پاک۔افغان مکالمہ ہوگا جو 2021 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد منعقد کیا جارہا ہے۔ ان کے مطابق اس کانفرنس کا مقصد کسی سیاسی گروہ کے خلاف سرگرمی نہیں بلکہ امن و استحکام کے لیے مشترکہ لائحہ عمل پر بات کرنا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: پیرس اولمپک گیمز: طالبان نے 3 افغان خواتین ایتھلیٹس کی ذمہ داری قبول کرنے سے کیوں انکار کیا؟
یہ اجلاس بند کمرہ کانفرنس ہوگی اور ’اسلام آباد پراسیس‘ کے آغاز کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ تاہم ڈاکٹر ماریہ سلطان نے واضح کیا کہ اس نشست میں طالبان یا دیگر سیاسی جماعتوں کو مدعو نہیں کیا گیا البتہ آئندہ اجلاسوں میں انہیں شامل کیا جائے گا۔
سابق امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے اس ملاقات کو غیر دانشمندانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ طالبان مخالف شخصیات کی شرکت پاکستان کی جانب سے ایک اشتعال انگیزی سمجھی جائے گی۔
مقامی اخبار کے مطابق ان کے بیان پر افغان رہنماؤں نے سخت ردعمل دیا۔ سابق افغان پارلیمنٹ کی رکن فوزیہ کوفی، جو اس اجلاس میں شریک ہوں گی، نے کہا کہ خطے کے ممالک کے ساتھ روابط افغانستان کے مستقبل پر اثرانداز ہونے کے لیے ضروری ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ خواتین، سیاسی اور سول سوسائٹی نمائندگان کو اپنے ملک کے مستقبل اور خواتین کے حقوق پر گفتگو کرنے کا پورا حق ہے۔
یہ بھی پڑھیے: طالبان حکام نے اقوامِ متحدہ کے افغان خواتین عملہ پر پابندی عائدکردی
فوزیہ کوفی نے کہا کہ میری قوم کی خواتین اور بچیاں دنیا کے سب سے سخت حالات میں زندگی گزار رہی ہیں، اس لیے ہر وہ اقدام خوش آئند ہے جو پرامن تصفیے اور خواتین کے حقوق کی بحالی میں مدد دے۔
میڈیا رپو3رٹ کے مطابق ڈاکٹر ماریہ سلطان نے خلیل زاد کے تبصرے پر براہِ راست جواب دینے سے گریز کیا تاہم کہا کہ جس شخص نے خود طالبان سے قطر میں مذاکرات کیے، وہ آج افغانوں کے باہمی مکالمے کی مخالفت کررہے ہیں، جو سمجھ سے بالاتر ہے۔