اکثر لوگ عوامی بیت الخلا استعمال کرتے ہوئے گھبراہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ چھینٹوں سے آلودہ سیٹ، بدبو یا صفائی کا ناقص انتظام ہمیں مجبور کر دیتا ہے کہ دروازہ کہنی سے کھولا جائے، فلش پاؤں سے دبایا جائے اور سیٹ پر بیٹھنے کے بجائے گھٹنوں کے بل جھک کر حاجت رفع کی جائے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ٹوائلٹ سیٹ سے بیماریاں لگ سکتی ہیں؟
یہ بھی پڑھیں: پانی کے کیڑے دماغی امراض کے علاج میں مددگار، چوہوں کی بچت کا امکان
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ماہرین صحت اور مائیکرو بایالوجی کے مطابق یہ خدشہ حد درجہ کمزور اور غیر حقیقی ہے۔ امریکا کی یونیورسٹی آف ساؤتھ فلوریڈا کی پروفیسر جل رابرٹس کہتی ہیں کہ نظریاتی طور پر تو ٹھیک لیکن حقیقت میں اس کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
جنسی امراض کا خطرہ؟
ایسے خدشات بھی عام ہیں کہ جنسی طور پر منتقل ہونے والے امراض جیسے کہ کلیمیڈیا یا گونوریہ ٹوائلٹ سیٹ سے لگ سکتے ہیں۔ لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ ان جراثیم کو زندہ رہنے کے لیے جسم کا اندرونی درجہ حرارت اور نم ماحول درکار ہوتا ہے جو ایک ٹھنڈی، سخت سطح پر ممکن نہیں۔ ان امراض کی منتقلی صرف براہ راست جسمانی رابطے یا جسمانی رطوبت کے تبادلے سے ہوتی ہے۔
پروفیسر رابرٹس کے مطابق اگر ٹوائلٹ سیٹ سے آسانی سے جنسی امراض پھیلتے تو ہمیں ہر عمر کے افراد میں حتیٰ کہ جنسی طور پر غیر متحرک لوگوں میں بھی یہ امراض بڑی تعداد میں دیکھنے کو ملتے۔
دیگر بیماریوں کا کیا امکان ہے؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ خون سے پھیلنے والی بیماریوں یا پیشاب کی نالی کے انفیکشن کا ٹوائلٹ سیٹ سے منتقل ہونا بھی نہایت نایاب ہے۔ یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب کسی بڑی مقدار میں آلودہ فضلہ پیشاب کی نالی میں داخل ہو،جو کہ عمومی طور پر نہیں ہوتا۔
البتہ کچھ ایسے وائرس جیسے ہیومن پیپیلوما وائرس جو جنسی طور پر بھی منتقل ہوتا ہے کچھ مخصوص حالات میں ٹوائلٹ سیٹ پر کئی دنوں تک زندہ رہ سکتا ہے لیکن اس سے انفیکشن اسی وقت ہوتا ہے جب کسی کے جنسی اعضا کی جلد زخمی ہو لہٰذا اس طرح کی صورتحال نہایت غیر معمولی ہے۔
اسی طرح جنٹل ہرپس والے کسی فرد سے وائرس ٹوائلٹ سیٹ پر منتقل ہو سکتا ہے مگر اس سے متاثر ہونے کے لیے بھی جلد کی چوٹ یا بہت زیادہ کمزور مدافعتی نظام درکار ہوتا ہے۔
کیا سیٹ پر ٹشو بچھا کر یا اسکواٹ کر کے بچا جا سکتا ہے؟
عوامی بیت الخلا میں اکثر افراد ٹوائلٹ پیپر بچھا کر بیٹھتے ہیں یا سیٹ کو چھوئے بغیر اسکواٹ کرنے کو بہتر سمجھتے ہیں۔ مگر مائیکرو بایولوجسٹوں کا کہنا ہے کہ ٹوائلٹ پیپر جیسا جھلی دار مواد جراثیم سے مکمل تحفظ فراہم نہیں کرتا۔ وہ جراثیم سیٹ سے پیپر کے ذریعے بھی گزر سکتے ہیں۔
مزید پڑھیے: مخصوص ایام میں خواتین ایتھلیٹس کو درپیش چیلنجز: کھیل کے میدان میں ایک پوشیدہ آزمائش
طبی ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ اسکواٹ کرنے سے خاص طور پر خواتین کو نقصان پہنچ سکتا ہے کیونکہ اس سے مثانے کو مکمل طور پر خالی کرنا مشکل ہو جاتا ہے، جو بعض اوقات انفیکشن کا سبب بن سکتا ہے۔
اصل خطرہ کہاں ہے؟
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اصل خطرہ سیٹ سے کم اور ہاتھوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ بیت الخلا کے استعمال کے دوران آپ کے ہاتھ ٹوائلٹ سیٹ، فلش ہینڈل، دروازے کے ہینڈل، یا دیگر آلودہ سطحوں سے رابطے میں آتے ہیں، اور پھر اگر آپ ان ہاتھوں سے چہرے یا منہ کو چھوئیں، تو جراثیم آسانی سے جسم میں داخل ہو سکتے ہیں۔
فضلے کے ذرات میں شامل بیکٹیریا جیسے ای کولائی، سالمونیلا، شگیلا، اور اسٹریپٹوکوکس نظامِ ہضم پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اور متلی، قے، یا دست جیسی علامات پیدا کر سکتے ہیں۔
’ٹوائلٹ چھینک‘ کیا ہے؟
جب آپ فلش کرتے ہیں تو بیت الخلا میں موجود جراثیم والے ذرات فضا میں اڑ کر بیت الخلا کے دیگر حصوں حتیٰ کہ آپ کے جسم یا کپڑوں پر بھی بیٹھ سکتے ہیں۔ اسے بعض ماہرین ’ٹوائلٹ چھینک‘ کہتے ہیں۔ کچھ وائرس، جیسے نورو وائرس یا کلوستریڈیم ڈیفیسائل (جو اسپتالوں میں عام ہے)، ان ذرات کے ذریعے فضا میں بھی پھیل سکتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ماہرین کے مطابق گھروں کے باتھ رومز اکثر پبلک ٹوائلٹس سے زیادہ جراثیم آلود ہوتے ہیں، کیونکہ گھروں میں صفائی ہفتہ وار ہوتی ہے جبکہ عوامی بیت الخلا اکثر دن میں کئی بار صاف کیے جاتے ہیں۔
بیماری سے بچنے کے لیے کیا کریں؟
بیماریوں سے بچنے کے لیے ماہرین کا سادہ سا مشورہ ہے کہ بیت الخلا استعمال کرنے کے فوراً بعد ہاتھوں کو صابن سے کم از کم 20 سیکنڈ تک دھوئیں اور اگر ممکن ہو تو ہاتھ دھونے کے بعد سینیٹائزر بھی استعمال کریں۔
ٹوائلٹ فلش کے فوراً بعد وہاں سے نکل جائیں تاکہ فضائی ذرات سے بچا جا سکے۔
موبائل فون کو بیت الخلا میں لے جانا بھی خطرناک ہو سکتا ہے کیونکہ وہ جراثیم اپنے ساتھ لے جا سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: کیا وٹامن سپلیمنٹس صحت مند زندگی کے لیے واقعی ضروری ہیں؟
ٹوائلٹ سیٹ سے بیماریوں کے لگنے کا خدشہ زیادہ تر مفروضات پر مبنی ہے۔ اصل خطرہ سیٹ سے نہیں بلکہ ہماری اپنی صفائی کی عادتوں سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر ہم بیت الخلا کے بعد ہاتھ دھونا معمول بنائیں تو بیماریوں کے پھیلاؤ سے بڑی حد تک بچا جا سکتا ہے۔