سنہ 2021 میں افغان طالبان کی کابل واپسی کے بعد پاکستان امریکا نے انسداد دہشت گردی ڈائیلاگ کا آغاز کیا تھا۔ پہلے ڈائیلاگ مارچ 2023 میں اسلام آباد اور دوسرے مئی 2024 میں واشنگٹن میں ہوئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: مودی کی 56 انچ کی چھلنی چھاتی اور جھکی جھکی نگاہیں
12 اگست 2025 کو اسلام آباد ڈائیلاگ کے انعقاد سے ایک دن پہلے امریکا نے بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کو فارن ٹیررسٹ آرگنائزیشن قرار دے دیا تھا۔ ان مذاکرات میں پاکستان امریکا نے ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور داعش خراسان کے خلاف مشترکہ اقدامات اور تعاون کا مشترکہ اعلامیے میں ذکر کیا ہے۔ دہشتگرد گروپوں کے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو روکنے اور انٹیلی جنس شئرنگ کی بات بھی سامنے آئی ہے۔
بی ایل اے نے پاکستان میں انفراسٹرکچر، انرجی منصوبوں، پائپ لائینوں، بندرگاہوں، فوجی اہلکاروں، چینی باشندوں اور سی پیک پروجیکٹ کو تواتر کے ساتھ نشانہ بنایا ہے۔ مارچ 2025 میں جعفر ایکسپریس پر حملہ اور اس کے 400 مسافروں کا اغوا بی ایل اے کی سب سے بڑی کارروائی تھی۔ پاکستان طویل عرصے سے بھارت پر الزام عائد کرتا آرہا ہے کہ وہ سی پیک منصوبوں کو نقصان پہنچانے کے لیے بی ایل اے کی مدد کر رہا ہے۔ سی پیک منصوبے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں زیرِ تکمیل ہیں۔ بھارت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو پاکستان کے زیرِ کنٹرول بھارتی علاقے قرار دیتا ہے۔
سنہ 2025 سے پہلے امریکا نے بی ایل اے کی سرگرمیوں کو نظر انداز کر رکھا تھا۔ بی ایل اے چین کو محدود رکھنے کے امریکی عزائم پورا کر رہی تھی۔ بظاہر بھارت اور بی ایل اے کا تعاون امریکی مفادات کے مطابق تھا۔ پاکستانی خدشات اور اعتراضات کو ایک طرح سے امریکا نے نظر انداز کر رکھا تھا۔
اب بی ایل اے پر نئی پابندیوں کے اعلان کے ساتھ پاکستان کے علاوہ چین کو بھی ایک ریلیف ملا ہے اور صورت حال تبدیل ہوئی ہے۔ بی ایل اے کو امریکا نے پہلے ہی سنہ 2019 سے اسپیشلی ڈیزگنیٹڈ گلوبل ٹیررسٹ قرار دے رکھا تھا۔ ایف ٹی او قرار دیے جانے کے بعد مالی، مادی و لاجسٹک مدد حاصل کرنا، امریکی مالیاتی اداروں اور بینکوں سے لین دین اور فنڈ حاصل کرنا ممکن نہیں رہتا۔ ایف ٹی او قرار پانے کے بعد امریکی عدالتوں میں مقدمات چلائے جا سکتے ہیں اور عالمی پابندیاں لگنے کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔
ایف ٹی او یعنی فارن ٹیررسٹ آرگنائزیشن قرار پانے کے سنگین نتائج ہیں۔ مختلف قسم کے امریکی قوانین ایسی تنظیم پر لاگو ہو جاتے ہیں۔ امیگریشن، ویزا اور سفری پابندیوں، فنڈنگ کے علاوہ سفارتی رابطوں، انسانی حقوق کی بنیاد پر اپنا کیس لڑنے اور یش کرنے میں بھی سخت قانونی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مزید پڑھیے: کپتان کی گرفتاری کی برسی، رہائی کے لیے ختم شریف ٹرائی کریں
ایف ٹی او کے تحت پابندیوں کی شکار تنظیم کو میٹریل سپورٹ اور وسائل فراہم کرنا بھی جرم ہے۔ میٹریل سپورٹ کی تشریح بہت وسیع البنیاد ہے۔ اس کے تحت فنڈنگ، ٹریننگ، اسلحہ کی فراہمی، امریکی بنکوں اور مالیاتی اداروں سے لین دین، اپنے لیے رقوم آبائی علاقوں سے منگوانے پر بھی قانونی پابندی لگ جاتی ہے۔ پابندی کا شکار تنظیم کو ماہرانہ رائے دینا، آئڈیاز فراہم کرنا، دستاویزی مدد فراہم کرنا اور پناہ گاہیں فراہم کرنا اور ایسے مشورے دینا بھی جرم ہے۔
امریکی قوانین پروپیگنڈا کرنے، میڈیا ٹریننگ فراہم کرنے، مددگار ویب سائٹ چلانے پر بھی روک لگاتے ہیں۔ سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو رپورٹ کر کے انہیں ڈیلیٹ کرایا جا سکتا ہے۔ بلوچستان فیکٹس نامی ٹوئٹر ہینڈل کے مطابق دو ہزار کے قریب سوشل میڈیا اکاؤنٹس پابندیوں کے اعلان کے بعد ڈیلیٹ ہو چکے ہیں۔
انڈیا جو پہلے اعلانیہ بلوچستان کی علیحدگی پسند مسلح تحریک کو سپورٹ کر رہا تھا اب یہ اس کے لیے ایسا کرنا آسان نہیں ہو گا۔ حوالدار بشیر اگر ٹک ٹاک پر ڈانس کی ویڈیو دیکھنے کی بجائے ٹھیک سے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کا تعاقب کر کے انڈیا اور بی ایل اے کا لنک ثابت کر دے تو انڈیا کے خلاف ایف اے ٹی ایف کا بڑا مضبوط کیس بنے گا۔ ہمارا بھارت مہان پہلے ہی ٹرمپ ٹیرف کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ اب بلوچ تحریک سے ملتے اپنے ڈیجیٹل فٹ پرنٹ مٹانے پر پورا زور لگائے گا۔بلوچ ایکٹیوسٹ جو پہلے یورپ اور امریکا میں انسانی حقوق کے نام پر زیادتیوں کا کیس بناتے تھے۔ اب امریکی پابندیوں کے بعد انہیں پہلے کی طرح حمایت اور مدد ملنی ممکن نہیں رہے گی۔ اخلاقی گراؤنڈ پر بنائے گئے بلوچ کاز کو اب دہشتگردی میں ملوث ہونے کے سنگین الزامات کا جواب دینا ہے۔
مزید پڑھیں: بھینس کا یار لیڈر
اس نئی پیشرفت میں پاکستان کی سفارتی اور ریاستی مضبوطی ظاہر ہوئی ہے۔ امریکا تو اپنی سرمایہ کاری کے تحفظ اور پاکستان کے اسٹریٹجک تعلقات کو بڑھانے کے لیے مدد کو آگے آیا ہے۔ یہ پاکستانی ریاست کے لیے ایک بہت اچھا موقع ہے۔ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بندوق برداروں اور بلوچستان کے حقوق کی بات کرنے والوں میں فرق کیا جائے۔ تمام جائز مطالبات کو ایڈریس کرتے ہوئے لوگوں کو دکھائی دیتا ریلیف فراہم کیا جائے۔ بلوچوں میں موجود یہ تاثر زائل کیا جائے کے ان کے وسائل چھینے جا رہے ہیں یا وہ پاکستان میں برابر کے شہری نہیں ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔