یہ 90 کی دہائی کے نصف اوّل کے آس پاس کی بات ہوگی، عمران خان نے کراچی پریس کلب میں میٹ دی پریس سے خطاب کے بعد دعوت دی کہ اب ان سے سوال کیے جائیں۔ کلب کے نسبتاً نوجوان رکن کی حیثیت سے میری نشست دوسری صف میں تھی، میں اٹھا اور اپنی نشست سے دو قدم آگے بڑھ کر ان سے کہا: ‘آپ سے کیا سوال کیا جائے، آپ تو سوال کرنے والے کے منہ پر گھونسا دے مار دیتے ہیں۔’
اس سوال کا ردِعمل کیا ہوا؟ یہ واقعہ دلچسپ ہے۔ عمران خان کے لب اور گلوکار سلمان احمد بیک وقت متحرک ہوئے، سلمان نے پیچھے سے گردن نکال کر میری شکل دیکھی کہ یہ کون بدتمیز ہے؟ ممکن ہے، چہرہ بگڑنے سے پہلے وہ میری اصل شکل دیکھنا چاہتے ہوں۔ اسی دم عمران خان بولے: ‘نہیں، نہیں، وہ بس ہوگیا، اب ایسا نہیں ہوگا، آپ پوچھیں جو جی چاہے پوچھیں۔’
سینیئر صحافی قیصر محمود جو شاید ساتھ ہی بیٹھے تھے، اٹھ کر میرا شانہ تھپتھپایا اور ایک بزرگ صحافی کو جن کی شہادت کچھ دن پہلے ہی ہوئی تھی، یاد کرتے ہوئے کہا: ‘خوش کردیا فاروق، تم نے صلاح الدین صاحب کی یاد تازہ کردی۔’
قیصر بھائی مرحوم تعریف بھی تنقیدی انداز میں کیا کرتے تھے۔ ان کی براہِ راست تھپکی نے میرا قد 2 انچ مزید بڑھا دیا اور اس روز میں سینہ چوڑا کرکے ابراہیم جلیس ہال سے نکلا۔ گفتگو ختم ہوچکی تھی لہٰذا کئی ساتھی مجھے گھیر کر پوچھنے لگے کہ یہ گھونسے والا کیا چکر ہے؟
یہ واقعہ 2، 4 روز پہلے کا ہی تھا۔ اخبار میں شائع ہوا تھا کہ لاہور کی ایک نشست میں تنقیدی نوعیت کا سوال پوچھنے پر عمران خان اپنی نشست سے اٹھے اور انہوں نے سوال پوچھنے والے صحافی کو گھونسا جڑدیا۔ یہ سطور لکھتے ہوئے میں نے تصدیق مزید کے لیے سینیئر صحافی، کالم نگار اور دانشور جناب سعید آسی سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا: ‘یہ واقعہ ایک صحافی اکرم چوہدری کے گھر رات کے کھانے کے موقع پر پیش آیا تھا۔ یہ نشست عمران خان کو صحافیوں سے متعارف کرانے کے لیے خصوصی طور پر منعقد کی گئی تھی۔’
سعید آسی صاحب کا خیال ہے کہ یہ واقعہ 1994 کا ہے۔ ان کا اندازہ درست لگتا ہے کیونکہ یہ وہی دن تھے جب جنرل حمید گل اور بعض دیگر اہم شخصیات عمران خان کے حق میں رطب اللسان رہتی تھیں اور ہفت روزہ ‘تکبیر’ میں انہی کی خواہش کے تحت عمران خان کے حق میں مضامین اور فرمائشی انٹرویو شائع کیے جاتے تھے لیکن تھوڑے ہی دنوں کے بعد ہفت روزے کی پالیسی بدل گئی اور اس میں ایک رپورٹ شائع ہوئی جس کے مندرجات جنرل حمید گل مرحوم کے فراہم کردہ تھے۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ عمران خان ایک برخود غلط (Self righteous) شخص ہیں جو نہ کسی کی سنتے ہیں اور نہ کوئی معقول بات ان کی سمجھ میں آتی ہے۔ ان سے کسی خیر کی توقع نہیں۔ رپورٹ میں ان کے غیر ملکی اور خاص طور پر صہیونی رابطوں کی نشاندہی بھی کی گئی تھی۔
انہی دنوں کی بات ہے کراچی پریس کلب ہی کے بیک یارڈ میں ایک جلسہ ہوا جس میں کراچی سے تعلق رکھنے والے بائیں بازو کے کارکنوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ جلسے کے مرکزی مقرر بائیں بازو کی ایک ممتاز جماعت قومی محاذ آزادی کے سربراہ معراج محمد خان تھے جنہوں نے قومی سیاست میں نیا خون شامل کرنے پر زور دیا اور سامعین سے اپیل کی: ‘لوگو، عمران خان ہی آ خری امید ہے، اس کا ساتھ دو۔’
کچھ دنوں کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے نام سے ایک جماعت وجود میں آگئی، عمران خان جس کے چیئرمین اور معراج محمد خان سیکرٹری جنرل تھے۔ ان دونوں خانوں کی جوڑی زیادہ دن نہ چل سکی اور معراج محمد خان تھوڑے ہی دنوں کے بعد منصب چھوڑ کر کراچی لوٹ آئے۔
دوستوں نے سوال کیا کہ خان صاحب یہ کیا ہوا، جلد ہی جی بھر گیا؟ اس قسم کے سوالات تسلسل سے ہونے لگے تو انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ وہ ایک بے وقوف آدمی ہے۔ نہ کسی کی سنتا ہے، نہ سمجھتا ہے، اس کے ساتھ چلنا اپنی توانائی ضائع کرنا ہے۔
ایک اطلاع ان دنوں یہ بھی سامنے آئی کہ عمران خان نے خان صاحب کے مرتبے اور حیثیت کو ملحوظ کبھی نہیں رکھا اور ایسا ہی سلوک کیا جیسا وہ اپنے ‘پرستاروں’ کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ یوپی کا ایک غیرت مند پٹھان جو ذوالفقار علی بھٹو جیسے طاقتور حکمران کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہوگیا تھا، عمران خان جیسی شخصیت کو کیسے برداشت کرتا۔
خان صاحب کے اس بیان پر مجھے تجسس ہوا اور میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آخر عمران خان کے جنرل حمید گل جیسے مربی پر بھی یقیناً کچھ ایسی ہی بیتی ہوگی جس کا ردِعمل سامنے آیا ہوگا۔ ممتاز صحافی سید سعود ساحر ملک کے انتہائی باخبر صحافی اور تجزیہ نگار تھے۔ ان کے مرحوم جنرل حمید گل سمیت عمران خان سے قربت رکھنے والے بہت سی شخصیات کے ساتھ تعلقات تھے۔ میرے سوال پر ان کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ انہوں نے کہا: ‘مربیوں کے اندازے غلط ثابت ہوئے، لونڈے نے اپنے سب سرپرستوں کو اوقات پر رکھا۔’
اس موقع پر انہوں نے ایک اشارہ اپنی ایک ٹانگ کی حرکت سے بھی کیا۔ شاہ صاحب بڑے دلچسپ بزرگ تھے، ہاتھ پاؤں اور زبان کے بیک وقت استعمال سے ایسی گفتگو کیا کرتے تھے جس سے کہی اور ان کہی سب باتیں سمجھ میں آجایا کرتی تھی۔
شاہ صاحب سے یہ واقعہ سنا تو مجھے اپنے لڑکپن کا بھی ایک واقعہ یاد آیا۔ سجاد احمد سجن اور میں انٹر میڈیٹ میں ساتھ ساتھ تھے، وہ پری میڈیکل میں تھے اور میں آرٹس میں لیکن لائبریری میں اخبار اکٹھے پڑھا کرتے تھے۔ وہ اچھے زمانے تھے۔ پاکستان کرکٹ کا گھر تھا۔ ون ڈے وغیرہ ان دنوں نہیں ہوتے تھے، ٹیسٹ میچ ہی ہوا کرتے تھے۔ کچھ ایسا یاد پڑتا ہے کہ وہ شاید کراچی اسٹیڈیم کا واقعہ تھا جس کی تصویر اخبار کے صفحہ اوّل پر شائع ہوئی۔
اس تصویر میں ایک شخص ایک نوعمر کے منہ پر چپت رسید کرتا ہوا دکھائی دیا۔ چپت کھانے والا وہ نوعمر تھا جو عمران خان سے آٹوگراف لینے کا خواہش مند تھا لیکن مدِمقابل کسی بلے باز سے زچ ہونے والے عمران خان نے اپنا سارا غصہ اس بچے پر اتار دیا۔
کھیل میں شدت پسندی بلکہ تشدد کا ایک واقعہ ان کے دیرینہ سیاسی رفیق کار مرحوم نوید خان جنہیں بعد میں قومی رابطہ کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا تھا، بھی بیان کیا کرتے تھے:
‘یہ شاید میانوالی کے سفر کی بات تھی، دورانِ گفتگو میر شکیل الرحمٰن کا ذکر ہوا۔ عمران خان نے ان کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کیے۔ میں نے پوچھا کہ آپ ایسا کیوں کہتے ہیں؟ عمران نے کہا کہ چھوڑو یار فضول آدمی ہے۔ نوید خان کے مطابق یہ بات ناقابلِ فہم تھی لہٰذا انہوں نے ضد کی اور کہا کہ ملک کے سب سے بڑے اخبار کے مالک کے بارے میں یہ رویہ مناسب نہیں۔ ایسے لوگوں کی تحقیر کرنے کے بجائے ان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے چاہئیں۔ اس پر عمران خان نے بتایا کہ تعلقات بہتر کیسے ہوسکتے ہیں۔ زمانہ طالبِ علمی میں ہم دونوں ایک جگہ کرکٹ کھیلا کرتے تھے، مجھے یہ شخص پسند نہیں تھا لہٰذا کھیل کے دوران میں نے اسے ایک بار بلا مار دیا تھا۔‘
میر شکیل الرحمٰن کے ساتھ تو عمران خان کی ناپسندیدگی کا سبب یہ تھا لیکن وہ 3 اور طبقات کو بھی توہین آمیز الفاظ سے یاد کیا کرتے تھے۔ یہ طبقات تھے، صحافی، سیاستدان اور طبقہ علما۔
یہ درست ہے کہ معراج محمد خان جیسے تجربہ کار، شائستہ اور مخلص سیاستدان اور جنرل حمید گل جیسے خواب دیکھنے والے دانشور سے عمران خان کی نہ بن سکی اور وہ ایسے لوگوں سے پیچھا چھڑانے میں جلد ہی کامیاب ہوگئے لیکن اس کے باوجود اس وقت تک تحریک انصاف کے اندر نظریاتی قیادت وزن رکھتی تھی اور پارٹی ڈسپلن ایسا تھا جس کی پابندی پر عمران خان بھی مجبور تھے۔ پارٹی کے بانی رکن اکبر ایس بابر ذہن پر زور ڈالے بغیر ایسی کئی مثالیں یکے بعد دیگرے بیان کردیا کرتے ہیں۔ ایک بار انہوں نے بتایا:
‘عمران کی یہ شدید خواہش تھی جس کا اظہار بھی اس نے بار بار کیا کہ غلام مصطفیٰ کھر کو پارٹی میں شامل کرکے اسے پنجاب کا صدر بنا دیا جائے۔ ایسی خواہشات پر ہم لوگ کہا کرتے کہ اوور مائی ڈیڈ باڈی۔’
اس طرح کی صورتحال میں عمران خان قائل ہوتے یا نہیں لیکن پارٹی کا کلچر ایسا تھا کہ وہ کچھ کر نہیں سکتے تھے لیکن رفتہ رفتہ انہوں نے اس پارٹی ڈسپلن سے بھی جان چھڑا لی اور اکبر ایس بابر جیسے نظریاتی لوگوں سے بھی۔ یوں وہ مکمل طور پر خود سر ہوگئے۔ اس طرح پارٹی کا عملی کنٹرول بھی ان کے ہاتھ میں آگیا جو اس سے قبل ان کے پاس نہیں بلکہ سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے پاس تھا۔
لیکن اب، اکبر ایس بابر کہتے ہیں: ‘عمران خان بہت خود سر ہوگئے ہیں، وہ اپنے سامنے کسی کو بات کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ان کے مزاج یا اس ذہنی کیفیت کو دیکھتے ہوئے کوئی ان کے سامنے بات کرتا بھی نہیں، اختلاف تو بہت بڑی بات ہے۔’
عمران خان کے اندر خود سری کی اس کیفیت کو کیسے شناخت کیا جاسکتا ہے؟
میرے اس سوال پر اکبر ایس بابر کہتے ہیں: ‘اختلاف اس شخص کو کتنا بُرا لگتا ہے، پارٹی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی خواہشات سامنے آنے پر اس کے رویے اور بیانات سے سامنے آتا رہتا ہے جیسے بعض لوگوں کو پنجاب اسمبلی کا ٹکٹ نہ ملا اور انہوں نے احتجاج کیا اس پر عمران نے بڑی رعونت سے کہا کہ یہ فیصلہ کرنا تو میرا کام ہے کہ کس کو کہاں رکھنا ہے لیکن میں آپ کو خود اپنا ایک تجربہ بتاتا ہوں۔’
بابر صاحب لحظہ رکے پھر کہا: ‘ایک بار یہ ہوا کہ کسی بات پر، شاید یہ بنی گالا کی زمین کے قانونی یا غیر قانونی ہونے کا معاملہ تھا، ہم دونوں کے درمیان اختلاف ہوگیا۔ میری دلیل سے عمران جب زچ ہوگیا تو کہا کہ تم اس وقت پاکستان کے سب سے کامیاب آدمی سے بات کر رہے ہو۔ میں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ لیکن ایسا شخص جو سیاست میں کامیاب نہ ہوسکا تو بُرا سا منہ بنا کر چہرہ دوسری طرف پھیر لیا۔’
‘وہ دلیل کا سامنا کبھی نہیں کرسکتا۔’
دلیل نیز سیاسی بصیرت میں، ہر 2 ابواب میں وہ ماٹھے ہیں، میں نے سوچا۔ یہ 2013 کی بات ہے، عمران خان ملک کے چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں جاکر اپنے منشور کا اعلان کر رہے تھے۔ اس مقصد کے لیے وہ منتخب صحافیوں سے گفتگو کرتے اور ان کے سوالوں کے جواب دیتے۔ اس نشست میں جب وہ اپنی گفتگو کرچکے تو ان سے میں نے سوال کیا کہ خان صاحب، جنرل پرویز مشرف 2 بار آئین شکنی کرچکے، یہ فرمائیے کہ آئندہ عام انتخابات میں اگر آپ کامیاب ہوگئے تو آپ اس ضمن میں کیا کارروائی کریں گے؟
عمران خان نے یہ سوال سنا اور ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر جواب دیا: ‘وہ آئین شکنی میرا نہیں، نواز شریف کا مسئلہ ہے۔’
یہی بات اس نشست کے بعد میرے ساتھ ایک مختصر انٹرویو میں بھی انہوں نے کہی۔ اس بار میں نے ان سے ایک اضافی سوال کیا کہ قوم کی نگاہ میں آئین شکنی نہ کسی سیاسی شخصیت کا مسئلہ ہے اور نہ کسی سیاسی جماعت کا۔ یہ ایک قومی مسئلہ ہے لیکن آپ کے اندازِ فکر سے لگتا ہے کہ آئین کی آپ کی نظر میں کوئی اہمیت ہی نہیں۔
عمران خان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ ممتاز صحافی جناب نذیر لغاری جو یہ گفتگو سن رہے تھے، مجھ سے کہا کہ یار، تم نے خان کی ایسی جگہ پر ہاتھ ڈال دیا تھا جہاں ہاتھ ڈالنا آسان نہیں تھا۔
یہ واقعہ میں نے اکبر ایس بابر کو سنایا اور ان سے سوال کیا کہ ایک پرانے ساتھی اور سنجیدہ سیاسی کارکن کی حیثیت سے آپ ان کے اس اندازِ فکر کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
اکبر ایس بابر نے کہا کہ یہ تو اس سوال جواب سے واضح ہے کہ وہ آئین شکن اور آئین شکنی کو کس انداز میں دیکھتے ہیں لیکن میں آپ کو یہ ضرور بتا سکتا ہوں کہ ان کے دل میں جنرل مشرف کے لیے جگہ کیوں تھی۔
کیوں تھی؟
میں نے انہی کے الفاظ دہرائے تو کہنے لگے کہ 2002 میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کی جو بات چیت تھی، اس میں انہیں یقین دلایا گیا تھا کہ اگر وہ 2 درجن کے قریب نشستیں لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو انہیں ایک وزارت مل جائے گی لیکن وہ سمجھ بیٹھے کہ ریفرنڈم میں حمایت کے انعام کے طور پر انہیں وزیرِاعظم بنا دیا جائے گا۔
اچھا یہ بتائیے کہ خان صاحب اقتدار کو اتنی اہمیت کیوں دیتے ہیں اور اس کے لیے ہر حد عبور کیوں کرجاتے ہیں؟
اکبر ایس بابر کے پاس اس سوال کا جواب بہت سادہ ہے۔ وہ کہتے ہیں:
‘اس سوال کا جواب ہمیں ان کی شخصیت کے ایک خلا میں تلاش کرنا چاہیے جس کی 2 بنیادیں ہیں۔ اوّل یہ کہ وہ خود کو ہر قاعدے قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے، ان کے نزدیک یہ ایک حقیر سی چیز ہے‘۔
یہ الزام بہت بڑا ہے۔ ایسا الزام لگا دینا آسان ہے، ثابت کرنا ناممکن کی حد تک مشکل۔ مسلم لیگ (ن) کی سہنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن ناصر الدین محمود کہتے ہیں کہ ثبوت کے لیے کیا یہ کافی نہیں کہ ان کے حکومت سنبھالنے پر حزبِ اختلاف نے بغیر کسی شرط کے تعاون اور میثاقِ معیشت کی تجویز پیش کی لیکن انہوں نے اقتصادی مشکلات سے دوچار ملک کے مسائل پر اپنی انا کو ترجیح دی اور اپوزیشن کے ساتھ سلام دعا تک کے روادار نہ ہوئے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ پہلے اپنے ہی معاہدے سے روگردانی کی اور بعد میں شوکت ترین کے ذریعے اسے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔
اکبر ایس بابر اس سے بھی بڑی بات کہتے ہیں۔ یہ بات انہوں نے کچھ عرصہ قبل اپنے ایک ویڈیو بیان میں بھی کہی تھی لیکن عمران خان کی گرفتاری کے بعد قومی تنصیبات پر پی ٹی آئی کے کارکنوں کے حملے کے بعد زیادہ زور دے کر ساتھ کہتے ہیں:
‘اس شخص کی ایک ہی خواہش ہے کہ قوم کو اداروں کے سامنے لاکھڑا کیا جائے۔ صرف یہی نہیں، اس شخص کے سامنے عرب بہار (Arab Spring) کا ماڈل ہے جس کے تحت وہ پاکستان کو لیبیا، تیونس، مصر اور شام کے انجام سے دوچار کرنا چاہتا ہے اور میرے پاس ثبوت موجود ہیں کہ یہ ایک بین الاقوامی منصوبہ ہے جس پر یہ کام کر رہا ہے۔’
دھرنے میں پارلیمنٹ ہاؤس، ایوانِ صدر، وزیرِاعظم ہاؤس اور پی ٹی وی پر حملے تو تاریخ ہیں لیکن گرفتاری کے بعد لاہور میں جناح ہاؤس (کور کمانڈر ہاؤس)، ریڈیو پاکستان پشاور کی آتشزدگی کے علاوہ ملک بھر میں قومی اور دفاعی تنصیبات پر حملوں اور قومی مقدسات کے بارے میں جو زبان استعمال کی گئی ہے، اکبر ایس بابر اسے بھی اپنے دعوے کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر سید جعفر احمد پاکستان اسٹڈی سینٹر جامعہ کراچی کے سربراہ رہے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کے علاوہ عالمی قائدین کی نفسیات کا مطالعہ ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ علم سیاسیات میں ایسی شخصیات کو ڈیماگاگ کا نام دیا جاتا ہے جو کوئی فلاحی ترقیاتی پروگرام تو نہیں رکھتے ہیں لیکن انتہا کو چُھوتی ہوئی قوم پرستی کے نام پر لوگوں کو اپنے گرد جمع کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن اس کے بعد چراغوں میں تیل نہیں رہتا۔ سب کچھ ڈوب جاتا ہے۔ ہٹلر اور مسولینی کا تجربہ بھی یہی بتاتا ہے اور جدید دور میں نریندر مودی اور عمران خان کے تجربے کا سبق بھی یہی ہے۔
ایسے سیاسی گروہ سے جو سیاست کی آڑ میں دہشتگردی کا راستہ اختیار کرلیں، ایک حقیقی سیاسی تحریک کے مقابلے میں ان کی اور اس کی قیادت کی سیاسی زندگی چند روزہ ہوتی ہے۔
نیشنل سیکیورٹی امور کے ممتاز ماہر اور انٹیلی جنس بیورو کے جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر نوید الہٰی ریٹائرڈ کے خیال میں یہی انجام عمران خان کی تحریک کا بھی ہے اور خود ان کا اپنا بھی۔ گویا یہ کھیل صرف چند دنوں کا ہے۔