سپریم کورٹ کا عمران خان کی رہائی اور پولیس لائنز میں رکھنے کا حکم، عدالتی حکمنامہ صبح 11 بجے تک مؤثر

جمعرات 11 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی گرفتاری کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے ان کی فوری رہائی اور جمعے کی صبح ان کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیشی کا حکم دے دیا۔ عدالت کی جانب سے تحریری حکمنامہ جاری کردیا گیا جو عمران خان کے جمعے کی صبح 11 بجے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہونے تک مؤثر رہے گا۔

اس موقع پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی، آپ کی گرفتاری کے بعد ملک کے حالات بہتر نہیں۔ ہم آپ کو سننا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک کے حالات خراب ہوئے۔ ان کا مزید کہنا تھا ’ہم آپ ملک میں امن چاہتے ہیں‘۔انہوں نے کہا آپ کو ہائیکورٹ کا فیصلہ ماننا ہوگا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وارنٹ گرفتاری قانونی تھے یا نہیں لیکن گرفتاری غیر قانونی ہے۔

یہ طے ہے کہ عدالت کے احاطے سے گرفتاری نہیں ہوسکتی، چیف جسٹس

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عمران خان 9 مئی کو کورٹ میں پیشی کے لیے آئے تھے اور وہ بائیو میٹرک روم میں موجود تھے۔ چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ جب ایک شخص عدالت آتا ہے  تو اس کا مطلب وہ کورٹ کے سامنے سرینڈر کرتا ہے۔

عمران خان کے وکیل نے اعلان کیا کہ ان کے موکل اب رہا ہوچکے ہیں۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کارکنوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اسلام آباد کے ڈی چوک پر جشن کا سماں۔

گرفتاری کے وقت مجھ پر ڈنڈے برسائے گئے، چیئرمین پی ٹی آئی

پیشی کے دوران عمران خان کا کہنا تھا کہ انہیں ہائیکورٹ سے اغوا کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ گرفتاری کے دوران انہیں ڈنڈے مارے گئیے ایسا تو کسی جرائم پیشہ فرد کے ساتھ بھی نہی ہوتا۔

چیف جسٹس نے عمران خان سے کہا کہ عدالت چاہتی ہے کہ ملک کے حالات ٹھیک رہیں اور انتشار نہ پھیلے لہٰذا آپ کارکنوں کو پر امن رہنے کی ہدایت کریں۔ اس پر عمران خان کا کہنا تھا کہ انتشار وہ پھیلا رہے ہیں جو انتخابات نہیں چاہتے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں نے کبھی انتشار کی بات نہیں کی، میں نے نیب نوٹس کا جواب بھی دیا تھا۔‘

عمران خان نے کہا کہ عوام کو ہدایت کی کہ سرکاری املاک کو نقصان نہ پہنچائیں۔

بنی گالہ جانا چاہتا ہوں، عمران خان

عمران خان نے عدالت سے کہا کہ وہ بنی گالہ جانا چاہتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں آپ کی سیکیورٹی عزیز ہے۔

عدالت نے عمران خان کی فوری رہائی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ وہ پولیس لائنز میں رہائشی بنگلے میں رہیں گے اور انہیں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے ملنے کی اجازت ہوگی۔

سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ عمران خان کی عدالتی احاطے سے گرفتاری غیر قانونی ہے کیوں کہ یہ اصول طے ہیں کہ عدالتی احاطے سے کسی کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کی سماعت کل صبح 11 بجے ہوگی

عمران خان کے کیس کی سماعت کل 11 بجے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوگی۔ عمران خان کی بنی گالہ اور زمان  پارک جانے کی استدعا بھی مسترد کر دی گئی۔

سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق آئی جی پولیس اسلام آباد کو کل سیکیورٹی فراہم کریں گے۔ عمران خان کو 10 سے 12 افراد  ساتھ رکھنے کی اجازت ہوگی۔

میں کارکنان کو عدالت آنے سے کیسے روک سکتا ہوں لیکن کوشش کروں گا، عمران خان

پیشی کے دوران جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ عمران خان یقینی بنائیں کہ ان کے کارکنان کل عدالت نہ آئیں۔ اس پر عمران خان نے کہا کہ ’میں کیسے روک سکتا ہوں میں کوشش کروں گا۔ تاہم اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ کوشش نہیں کریں گے آپ کارکنوں کو روکیں گے کیوں کہ یہ عدالتی حکم ہے۔

عمران خان کو سول لائنز سے کوئی گرفتار نہ کرے، عدالت

عدالت نے ہدایت کی کہ عمران خان کو سول لائنز سے کوئی گرفتار نہ کرے اور وہ جس سے بھی ملنا چاہیں انہیں ملنے دیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان ایک فہرست فراہم کردیں کہ وہ کس کس سے ملاقات کرنا چاہیں گے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’مجھے دھمکی دی گئی کہ آپ پر بھی حملہ ہوگا، ہم یہاں انصاف کے لیے بیٹھے ہیں اس لیے دھمکیاں دی جارہی ہیں‘۔

گرفتاری کے بعد کیا حالات رہے مجھے کچھ پتا نہیں، عمران خان

عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ مجھے کچھ پتا نہیں گرفتاری کے بعد کیا حالات ہوئے، میرے وکلاء نے کل بتایا کہ ملک میں انتشار یوگیا۔

قبل ازیں نیب نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو سہ پہر سپریم کورٹ کے روبرو پیش کیا۔ تین رکنی بینچ نے تقریباً پونے 6 بجے کے بعد سماعت کا آغاز کیا۔

عمران خان کو پولیس لائنز گیسٹ ہاؤس سے سپریم کورٹ لایا گیا

عمران خان کو ایک سیاہ رنگ کی گاڑی میں لایا گیا۔ انہیں ججز کے داخل ہونے والے راستے سے عدالت کے اندر پہنچایا گیا۔ وہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے تھے۔

عمران خان کو پولیس لائنز گیسٹ ہاؤس میں حراست میں رکھا گیا تھا جہاں سے انہیں عدالت لایا گیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی سپریم کورٹ آمد سے قبل ڈی آئی جی آپریشنز نے عدالت کے باہر سیکورٹی کا جائزہ لیا۔سپریم کورٹ کے باہر بکتر بند گاڑی بھی پہنچا دی گئی ہے۔ ۔اسلام آبا د پولیس عمران خان کو سول لائنز سے لیکر سپریم کورٹ کے لیے روانہ ہوئی تھی۔

چیئرمین پی ٹی آئی کی سپریم کورٹ آمد سے قبل ڈی آئی جی آپریشنز شہزاد ندیم بخاری نے عدالت کے باہر سیکورٹی کا جائزہ لیا۔

سپریم کورٹ کے باہر سیکورٹی کے غیرمعمولی اقدامات دیکھنے میں آئے اور پولیس کی جانب سے غیر متعلقہ افراد کو عدالت میں داخل ہونے سے روکا گیا۔

عمران خان کی گرفتاری کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے نیب کے ہاتھوں گرفتار سابق وزیر اعظم عمران خان کو ایک گھنٹے میں عدالت پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

درخواست ضمانت خارج ہوئی تو عمران خان کو جمعے کو ہی گرفتار کر لیں گے، رانا ثناء

دریں اثنا وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے ایک نجی ٹی وی چینل  میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جمعے کو درخواست ضمانت خارج ہونے کی صورت میں عمران خان کو دوبارہ گرفتار کر لیا جائے گا۔

رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ عمران خان کو اس کیس کے علاوہ لاہور کور کمانڈر کے گھر پر حملہ کرنے اور دیگر کسی بھی کیس میں گرفتار کر سکتے۔

سپریم کورٹ کا تحریری حکمنامہ جاری

سپریم کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کے خلاف دائر کردہ درخواست پر اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔

عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ درخواست گزار کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے میں القادر ٹرسٹ کیس میں چیئرمین، قومی احتساب بیورو کی جانب سے مورخہ یکم مئی 2023 کو جاری کیے گئے وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد کا طریقہ غلط اور غیر قانونی ہے۔

سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ چوں کہ درخواست گزار نے پہلے ہی القادر ٹرسٹ کیس میں نیب کی جانب سے کی گئی کارروائی کے خلاف عدالتی ریلیف حاصل کرنے کے لیے عدالت میں سرنڈر کر دیا تھا اس لیے مذکورہ وارنٹ پر عمل درآمد نے درخواست گزار کے انصاف تک رسائی کے حق اور عدالت کے تقدس اور تحفظ کی خلاف ورزی کی ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 4، 9، 10-A اور 14 کے تحت درخواست گزار کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

اپنے حکم میں سپریم کورٹ نے کہا کہ درخواست گزار کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ 12 مئی 2023 کو کو صبح 11 بجے اسلام آباد ہائی کورٹ میں القادر ٹرسٹ کیس میں اپنے خلاف نیب کی کارروائی کو چیلنج کرنے کے لیے دائر کی گئی رٹ پٹیشن کی سماعت کے لیے پیش ہوجائے۔

عدالت نے نیب حکام اور اسلام آباد پولیس کو حکم دیا کہ وہ درخواست گزار کے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہونے تک ان کی فول پروف سیکیورٹی یقینی بنائیں۔

سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس رٹ ]پٹیشن کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے سامنے رکھیں تاکہ اس کی سماعت کے لیے بینچ تشکیل دیا جائے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ درخواست گزار کی کل یعنی 12 مئی کو صبح 11 بجے ہائی کورٹ میں پیشی تک اس کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے وہ پولیس لائنز گیسٹ ہاؤس میں رہے۔ جب تک درخواست گزار پولیس گیسٹ ہاؤس میں ہوتا ہے، وہ 10 مہمانوں سے مل سکے گا جن کی تفصیلات وہ متعلقہ پولیس افسر کو فراہم کرے گا اور ان افراد کو جب تک درخواست گزار چاہے اس کے ساتھ رہنے کی اجازت ہوگی۔

سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ یہ حکم کل یعنی 12 مئی 2023 کو صبح 11 بجے درخواست گزار عمران خان کے ہائی کورٹ کے سامنے پیش ہونے تک کارآمد رہے گا اور ہائی کورٹ کے پاس کردہ کسی بھی حکم کے تابع ہوگا۔ عدالت نے قرار دیا کہ اس حکم سے القادر ٹرسٹ کے معاملے میں نیب کی جانب سے کی جا رہی تحقیقات کی کارروائی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔

عمران کی پیشی سے قبل عدالتی کارروائی کا احوال

قبل ازیں سابق وزیر اعظم کی گرفتاری کے خلاف اپیل پر سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل نے تسلیم کیا کہ احاطہ عدالت میں جو ہوا وہ انصاف کی راہ میں بُری مثال قائم کرے گا۔ اس واقعے نے پوری قوم میں بہت خوفناک تاثر قائم کیا۔

جسٹس اطہر من اللہ بولے، عوام قانون پر عملدآمد نہ ہونے سے متاثر ہو رہے ہیں، وقت آگیا ہے کہ قانون کی عملداری یقینی بنائی جائے اور اس معاملے کو ٹھیک کرنے کے لیے معاملہ ریورس کرنا پڑے گا۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان بولے؛ اب تو جوڈیشل ریمانڈ ہو چکا ہے۔ جس پر جسٹس اطہر من اللہ بولے، اس معاملے کو ٹھیک کرنے کے لیے سب ریورس کرنا پڑے گا۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ عمران خان کو گرفتار کس نے کیا تھا؟ جس پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ آئی جی اسلام آباد کے مطابق انہوں نے وارنٹ کی تعمیل کرائی۔

لیکن نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ عدالتی حکم کے مطابق پولیس نے وارنٹ کی تعمیل کرائی تھی۔

اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا عدالتی حکم کے مطابق پولیس کارروائی کی نگرانی کررہی تھی؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل رینجرز نے پولیس کے ماتحت گرفتاری کی تھی۔

چیف جسٹس نے پھر پوچھا کہ رینجرز کے کتنے اہلکار گرفتاری کے لیے موجود تھے؟ اس سوال پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد رینجرز اہلکار عمران خان کی سیکیورٹی کے لیے موجود تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ لیکن نیب نے تو وارنٹ کی تعمیل سے لاتعلقی کا اظہار کردیا ہے۔ اس بات پر ایڈووکیٹ جنرل کسی قانون کے تحت رجسٹرار سے اجازت لینے کی پاپندی نہیں تھی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ کیا شیشے اور دروازے توڑے گئے؟ انہوں نے مزید کہا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعات 47 سے 50 تک پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ بائیو میٹرک برانچ کی اجازت کے بغیر بھی شیشے نہیں توڑے جاسکتے۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ عمران خان کو کہیں اور گرفتار کرنا ممکن نہیں تھا کیونکہ وہ ہر پیشی پر ہزاروں افراد کو کال دیتے تھے۔

سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان نیب کیس میں ضمانت کرانے ہائیکورٹ آئے تھے، جہاں بائیو میٹرک کے دوران رینجرز نے ہلا بول دیا اور دروازے اور کھڑکیاں توڑ کر عمران خان کو گرفتار کر لیا گیا۔ عمران خان کیساتھ بدسلوکی ہوئی پرتشدد گرفتاری ہوئی۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق مقدمہ شاید کوئی اور مقرر تھا۔ کیا آپ کی درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت کیلئے مقرر تھی؟ جس پر عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ عمران خان درخواست جمع کرانے کیلئے بائیو میٹرک کرانے گئے جو عدالتی تقاضا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ نیب کو رجسٹرار ہائیکورٹ سے گرفتاری سے پہلے اجازت لینی چاہیے تھی۔ نیب نے عدالت کی توہین کی ہے۔ خوف کی فضا بنائی گئی۔  90 افراد احاطہ عدالت میں داخل ہوئے تو عدالت کی کیا توقیر رہی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کسی بھی فرد کو احاطہ عدالت سے کیسے گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ ماضی میں عدالت میں توڑ پھوڑ کرنے پر وکلاء کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی کی گئی۔ کسی فرد نے عدالت کے سامنے سرنڈر کردیا تو اس کو گرفتار کرنے کا کیا مطلب ہے۔ کوئی شخص بھی ائندہ انصاف کیلئے خود کو عدالت میں محفوظ تصور نہیں کرے گا۔

عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت کیلئے مقرر کی گئی۔ عدالت دیکھے وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کس طریقے سے کرائے گئے۔ آئی او کی عدم موجودگی میں نیب نے عمران خان کو گرفتار کیا۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ہم اس وقت صرف عدالت کی عزت اور انصاف کی فراہمی کا معاملہ دیکھ رہے ہیں۔ جس پر سلمان صفدر نے کہا کہ سپریم کورٹ کو عدالت کی توقیر کو بحال کرانا ہوگی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نیب کئی سالوں سے منتخب عوامی نمائندوں کو تضحیک سے گرفتار کرتا رہا ہے۔ جب کوئی شخص عدالتی احاطے میں داخل ہو تو وہ بظاہر عدالت کے سامنے سرنڈر کرتا نظر آتا ہے۔ یہ طریقہ کار بند کرنا ہوگا۔ ہم سیاسی لوگوں سے امید کرتے ہیں کہ وہ سیاسی معاملات عدالتوں میں نہ لائیں۔

عدالتی استفسار پر عمران خان کے وکیل بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ عمران خان کی درخواست کو ڈائری نمبر لگ چکا تھا۔ ہم نے اسی دن درخواست سماعت کی استدعا کی تھی۔ جس پر چیف جسٹس بولے؛ اس سارے واقعے میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار سے پوچھنا چاہیے۔ ہم اس کیس میں اٹارنی جنرل کو طلب کرتے ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ باہر جو کچھ ہورہا ہے وہ فوری طور پر رک جانا چاہیے۔ انصاف کے لیے ضروری ہے کہ عدالت میں تحفظ ملے۔ جسٹس اطہر من اللہ بولے، لیڈر شپ کو اپنے فالورز کو روکنا چاہیے۔

عمران خان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سیکرٹری داخلہ کو بھی گرفتاری کے وارنٹ کا علم نہیں تھا۔ قانون پر عملدرآمد ختم ہونے کے باعث ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں، اگر عمران خان گھر سے یا عدالت کے باہر سے گرفتار ہوتے تو کیس کی پیروی نہ کرتے، ان کا احاطہ عدالت سے گرفتار ہونا افسوس ناک ہے۔

عمران خان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان نیب کے متعلقہ تمام کیسز میں نوٹسز کا جواب دے رہے تھے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں کیس کے میرٹ ڈسکس نہیں کر رہے۔ اصل معاملہ کورٹ کی توہین کا ہے۔

چیف جسٹس کے مطابق عدالت کے لیے اس وقت گرفتاری کے وارنٹ کا سوال ہی نہیں۔ وارنٹ کی تعمیل کیسے ہوئی یہ سب سے اہم ہے۔ ہر کوئی قانون کی حکمرانی کی بات کررہا ہے مگر اس پر عمل کوئی نہیں کر رہا۔

عمران خان کے وکیل کے مطابق نیب نے انکوائری کو بغیر نوٹس دیے انویسٹی گیشن میں بدل دیا۔ ہم اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے یہی کہتے رہے کہ ہماری انصاف تک رسائی کو محروم کیا گیا،

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ احاطہ عدالت سے گرفتاری سے قبل تفتیشی افسر نے اجازت سمیت وارنٹ کی تعمیل کس نے کی؟ جس پر اٹارنی جنرل منصور عثمان نے عدالت کو بتایا کہ وزارت داخلہ کو تعمیل کیلئے خط لکھا تھا۔

جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ وارنٹ کی تعمیل تفتیشی افسر یا نیب نے نہیں کی۔ نیب آرڈیننس کے مطابق وارنٹ کی تعمیل کون کروائے گا؟ نیب خود بھی وارنٹ کی تعمیل کر سکتا تھا؟

جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے دریافت کیا کہ آپ نے کسی اور سے احاطہ عدالت کے اندر سے وارنٹ کی تعمیل کا کہا۔ جب چیئرمین نیب نے وارنٹ گرفتاری جاری کیا تو کیا آپ نے گھر پر گرفتاری کی کوشش کی؟

چیف جسٹس عمر عظا بندیال بولے؛ کیا آپ جان بوجھ کر کورٹ روم کے اندر سے گرفتار کرنا چاہتے تھے؟ یکم مئی سے 8 مئی تک آپ نے نوٹس پر تعمیل کرانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟

اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ معاملے کو پیچیدہ مت بنائیں۔ ملزم لاہور کا رہائشی ہے آپ نے صوبائی حکومت کی بجائے وفاقی حکومت کو کیوں لکھا؟

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ یہ واضح ہے کہ عمران خان نے نیب نوٹس پر عمل نہیں کیا تھا، نیب نوٹس کا مطلب ہوتا ہے کہ بندہ ملزم تصور ہوگا، کئی لوگ نیب نوٹس پر بھی ضمانت کروالیتے ہیں، مارچ کے نوٹس کا جواب مئی میں دیا گیا، کیا عمران خان نے قانون نہیں توڑا تھا۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ نیب وارنٹ تو عمران خان نے چیلنج ہی نہیں کیے، عمران خان نیب میں شامل تفیش کیوں نہیں ہوئے؟ جس پر عمران خان کے وکیل نے بتایا کہ عمران خان کو صرف ایک ہی نوٹس موصول ہوا تھا جس کا جواب دیدیا گیا تھا۔ انکوائری مکمل ہونے کے بعد رپورٹ ملزم کو دینا لازمی ہے۔

عدالتی استفسار پر نیب کے وکیل نے بتایا کہ ہائیکورٹ کے آرڈر کے مطابق گرفتاری پولیس کی نگرانی میں کی گئی۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے جواب دیا کہ پولیس نے رینجرز کی مدد سے گرفتاری کی۔

جسٹس اطہر من اللہ کے استفسار پر نیب کے پروسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کو صرف ایک نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ جس پر جسٹس اطہر من اللہ بولے؛ بظاہر نیب کے وارنٹ قانون کے مطابق نہیں، کیا وارنٹ جاری ہونے کے بعد گرفتاری کی کوشش کی گئی؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دریافت کیا کہ یکم مئی کو وارنٹ جاری ہوئے اور 9 کو گرفتاری ہوئی،

8 دن تک نیب نے خود کیوں کوشش نہیں کی، کیا نیب عمران خان کو عدالت سے گرفتار کرنا چاہتی تھی،

وزارت داخلہ کو 8 مئی کو خط کیوں لکھا گیا تھا؟

نیب پروسیکیوٹر نے بتایا کہ 9 مئی کی سماعت کی وجہ سے 8 مئی کو وزارت داخلہ کو خط نہیں لکھا تھا۔ جسٹس اطہر من اللہ بولے؛ نیب نے وارنٹ کی تعمیل کیلئے پنجاب حکومت کو کیوں نہیں لکھا، نیب نے ملک کو بہت تباہ کیا ہے۔

جس پر نیب پروسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی بولے؛ عمران خان کا رویہ بھی دیکھیں، ماضی میں مزاحمت کرتے رہے، نیب کو جانوں کے ضیاع کا بھی خدشہ تھا۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے بقول وارنٹ کی گرفتاری کا طریقہ وفاقی حکومت نے خود طے کیا تھا۔ عمران خان کی گرفتاری کے وقت ہائیکورٹ میں تفتیشی افسر کی موجودگی کے حوالے سے نیب افسران عدالتی سوالوں کے تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔

القادر ٹرسٹ اراضی کیس میں نیب کے ہاتھوں گرفتار چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے اپنی گرفتاری کے خلاف دائر درخواست میں اضافی دستاویزات سپریم کورٹ میں جمع کراتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ سے بائیومیٹرک تصدیق کے دوران غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی اضافی دستاویزات میں سابق وزیر اعظم نے نیب کال اپ نوٹس اور ڈی جی نیب کو لکھے خط کی کاپی شامل کی ہیں۔ عمران خان نے چئیرمین نیب کیخلاف دائر رٹ پٹیشن اور بیان حلفی بھی جمع کرادیا ہے۔

انصاف کے تقاضوں کیلئے اضافی دستاویز کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کی استدعا کرتے ہوئے عمران خان نے اپنی درخواست میں موقف اپنایا ہے کہ انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ سے بائیومیٹرک تصدیق کے دوران غیر قانونی گرفتار کیا گیا۔

’میرے وکلا گوہر علی اور علی بخاری کیساتھ دوران گرفتاری بد تمیزی کی گئی اور ان کی آنکھوں پر زہریلا اسپرے کیا گیا۔‘

سپریم کورٹ میں سماعت سے قبل اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں آج کی سماعت کا نتیجہ کیا ہوگا اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp