گجرات کے ایک اسکول میں دسویں جماعت کے طالب علم کو اس کے جونیئر نے چاقو کے وار سے قتل کر دیا۔ پولیس تحقیقات میں ملزم اور اس کے ایک دوست کے درمیان ہونے والی انسٹاگرام چیٹ سامنے آئی ہے، جس میں اس نے جرم کا اعتراف بھی کیا ہے۔
انسٹاگرام چیٹ کا خلاصہ
پولیس کے مطابق ملزم نے اپنے دوست سے آن لائن گفتگو میں قتل کا اقرار کیا۔ گفتگو کے اہم حصے درج ذیل ہیں:
دوست: ’بھائی، تم نے کچھ کیا آج؟‘
ملزم: ’ہاں۔‘
دوست: ’کیا تم نے چاقو مارا تھا؟‘
ملزم: ’ہاں تو۔‘
یہ بھی پڑھیں شوہر نے بھارتی فلم’ دریشم‘ کی طرز پر بیوی کو قتل کرکے قبرستان میں دفن کردیا
دوست: ’وہ مر گیا شاید۔‘
ملزم: ’کون تھا ویسے؟‘
دوست: ’ارے پوچھ رہا ہوں، تم نے ہی چاقو مارا تھا؟‘
ملزم: ’ہاں۔‘
جب دوست نے وجہ پوچھی تو ملزم نے کہا: ’وہ مجھ سے کہہ رہا تھا کہ تُو ہے کون، کیا کر لے گا؟‘
دوست نے جواب دیا: ’مار دیتے، مارنا نہیں تھا۔‘
ملزم نے کہا: ’چھوڑ نا، اب جو ہوگیا سو ہوگیا۔‘
یہ بھی پڑھیں انڈیا: ضعیف خاتون کو ‘چڑیل’ قرار دے کر قتل کردیا گیا، منصوبہ 5 سال پرانا تھا
واقعے کی تفصیلات
مقتول کی شناخت نیاں سنتانی کے طور پر ہوئی ہے، جو دسویں جماعت کا طالبعلم تھا۔ منگل کے روز اسکول کی چھٹی کے بعد وہ گھر جانے کے لیے نکلا تو آٹھویں جماعت کے ایک طالبعلم اور اس کے چند دوستوں نے اسے گھیر لیا۔ زبانی جھگڑا جلد ہی جسمانی لڑائی میں بدل گیا، جس کے دوران آٹھویں جماعت کے لڑکے نے اچانک چاقو نکال کر نیان پر حملہ کردیا، چاقو کے پے در پے وار کیے اور پھر موقع سے فرار ہوگیا۔
CCTV فوٹیج میں دکھائی دیتا ہے کہ نیان زخم پر ہاتھ رکھ کر اسکول کے اندر واپس آتا ہے۔ اسے فوراً ایک نجی اسپتال لے جایا گیا، جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔
یہ بھی پڑھیے مرد نے پارٹنر اور اسکی 3 سالہ بیٹی کو گلا گھونٹ کر قتل کیا، لپ اسٹک سے دیوار پر اعتراف جرم تحریر کیا
پولیس اور اسکول کی کارروائی
ملزم نے واردات کے بعد اسکول کے پچھلے حصے میں چھپنے کی کوشش کی لیکن سیکیورٹی گارڈ نے دیکھ کر اسکول انتظامیہ اور پولیس کو اطلاع دی۔ پولیس نے مقدمہ درج کر کے ملزم کو گرفتار کر لیا ہے۔ چونکہ وہ نابالغ ہے، اس لیے اسے جووینائل جسٹس ایکٹ کے تحت حراست میں رکھا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے شوہر کو کیسے قتل کیا جائے؟ بھارتی خاتون نے یوٹیوب سے طریقہ سیکھ کر ’کامیاب واردات’ کر ڈالی
پس منظر اور ردعمل
اس واقعے نے احمد آباد میں والدین اور شہریوں میں شدید غم و غصہ پھیلا دیا۔ شہر میں بڑے پیمانے پر احتجاج کیے گئے اور اسکولوں میں سیکیورٹی اور بچوں میں بڑھتے تشدد پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
یہ دلخراش واقعہ صرف ایک طالبعلم کی موت نہیں بلکہ معاشرتی ڈھانچے پر کئی سوالیہ نشان چھوڑتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں بھارت: دانتوں کے ڈاکٹر نے ساس کو قتل کردیا، لاش کے 19 ٹکڑے کرکے مختلف مقامات پر پھینک دیے
نوعمر بچوں میں بڑھتی ہوئی جارحیت، آسانی سے ہتھیاروں کی دستیابی، اور سوشل میڈیا پر دوستی و اظہار کے غلط طریقے ایک تشویشناک رجحان بن چکے ہیں۔
والدین، اساتذہ اور ریاستی اداروں کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ بچوں کی نفسیاتی تربیت اور جذباتی رہنمائی پر سنجیدگی سے توجہ دیں۔