چند دن قبل خبر آئی کہ بھارت میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی انتظامیہ نے مرکز کے زیراہتمام علاقے میں 25 کتابوں پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ پابندی مقبوضہ جموں و کشمیر کے محکمہ داخلہ کی طرف سے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی سربراہی میں جاری کیے گئے ایک حکم نامے کے ذریعے لگائی گئی۔
مقبوضہ کشمیر سے آنے والی خبریں بہت تکلیف دہ اور دردناک ہوتی ہیں اور کشمیری عوام پر توڑے گئے ظلم ایسے ہیں کہ انہیں سادہ الفاظ میں بیان ہی نہیں کیا جاسکتا۔ بعض تجزیہ کار تو مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں پر بھارتی مظالم کو غزہ میں اسرائیل کی جانب سے روا مظالم سے بھی زیادہ قرار دیتے ہیں۔ بقول شخصے اسرائیل فلسطینیوں پر مظالم ڈھاتا ہے اور پھر انہیں رونے کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ بھارتی حکومت یہی ظلم کشمیریوں پر کررہی ہے، مگر انہیں رونے بھی نہیں دیتی، سسکیوں کی آواز بھی بند کردیتی ہے۔
اس پس منظر میں 25 کتابوں پر پابندی کی خبر پر زیادہ فوکس نہیں کیا کہ جب مقبوضہ کشمیر میں انسانی جان کی حرمت اور تقدس نہیں تو سفاک انتظامیہ کے لیے کتابوں کی کیا اہمیت ہوگی؟ 3، 4 دن قبل ایک کشمیری دوست سے واٹس ایپ گروپ میں چیٹ ہوئی تو اندازہ ہوا کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا نظر آرہا ہے۔ یہ دراصل گہرے منصوبے کے تحت کیا جارہا ہے۔ خوفناک ایجنڈے پر عمل درآمد کی کوشش۔ اپنے آج کے کالم میں اسی پر بات کرتے ہیں۔
بھارتی حکومت اور بی جے پی دانشور اصل میں یہ چاہ رہے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی انتہائی گمبھیر اور سنگین صورتحال کو نہ صرف نارملائز کر دیا جائے بلکہ نئی نسل کو اس سب کچھ سے بے خبر رکھا جائے۔ ان کی یادداشتوں کو کھرچ کر مٹا دیا جائے۔ اسی وجہ سے وہاں ان کتابوں پر پابندی لگائی گئی بلکہ کوشش ہورہی ہے کہ کشمیریوں کی تاریخ سے متعلق کوئی بات ہی نہ کرے۔
جن کتابوں پر پابندی لگی ہے، ان کے پبلشنگ ادارے معروف اور عالمی سطح پر اپنی شناخت رکھتے ہیں، یہ مصنفین بھی بہت مشہور ہیں، دنیا بھر میں انہیں پڑھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود پابندی لگ گئی۔
فہرست میں ہندوستانی آئینی ماہر اور دانشور اے جی نورانی کی بہت مشہور کتاب ‘دی کشمیر ڈسپیوٹ’، برطانوی مصنفہ اور مؤرخ وکٹوریہ شوفیلڈ کی ‘کشمیر ان کانفلیکٹ – انڈیا، پاکستان اینڈ دی ان اینڈنگ وار’، بکر پرائز یافتہ ارندھتی رائے کی ‘آزادی’ اور لندن کے اسکول آف اکنامکس کے پروفیسر سمنتر بوس کی ‘کنٹسٹیڈ لینڈز’ شامل ہیں۔
معروف بھارتی ویب سائٹ وائر اردو کے مطابق، “اس فہرست میں شامل دیگر اہم کتابوں میں آسٹریلوی ماہر تعلیم کرسٹوفر سنیڈن کی ‘انڈیپنڈنٹ کشمیر’، صحافی اور ایڈیٹر انورادھا بھسین کی ‘اے ڈسمینٹل اسٹیٹ – دی اَن ٹولڈ اسٹوری آف کشمیرآفٹرآرٹیکل 370 ‘، سیما قاضی کی لکھی ہوئی ‘بٹوین ڈیموکریسی اینڈ نیشن- جینڈر اینڈ ملٹرائزیشن ان کشمیر’، امریکی یونیورسٹی پنسلوانیا کی پروفیسر حفصہ کنجوال کی ’کولونائزنگ کشمیر‘ اور ڈیوڈ دیوداس کی لکھی ہوئی ‘ان سرچ آف اے فیوچر دی اسٹوری آف کشمیر’ سمیت ایسی کئی کتابیں شامل ہیں، جنہوں نے وادی اور وہاں لوگوں کی کہانیاں دنیا کے سامنے پیش کی ہیں۔”
معروف تاریخ دانوں عائشہ جلال اور پروفیسر سوگاتا بوس کی کتاب ’کشمیر اینڈ دی فیوچر آف ساؤتھ ایشیا‘، مولانا مودودی کی مشہور کتاب ’الجہاد فی الاسلام‘ اور اخوان المسلمین کے بانی سید حسن البنا شہید کی کتاب ’مجاہد کی آزان‘ بھی ان بین ہونے والی کتب میں شامل ہے۔
وائر اردو ہی میں سید افتخار گیلانی کے کالم سے یہ دلچسپ بات پتہ چلی کہ بھارت میں مرکزی سطح پر جن 50 کے قریب کتابوں پر پابندی ہے، ان میں مشہور پاکستانی ناول نگار نسیم حجازی کا ناول ’خاک و خون‘ بھی شامل ہے۔ یاد رہے کہ خاک و خون پارٹیشن کے حوالے سے ہے اور یہ کہ کس طرح ہندوستان کی مسلم آبادی پاکستان بنانے کے لیے یکسو اور پُرعزم ہوئی۔
وائر کی رپورٹ کے مطابق، “آزادی کے بعد پہلی بار 1950 میں 3 کتابوں پر پابندی لگائی گئی، ان میں حمید انور کی ’پاکستان پس منظر‘، آغا بابر کی ’سیز فائر‘ اور نسیم حجازی کا ناول ‘خاک و خون’ تھا۔ اس کے 2 سال بعد مولانا صادق حسین سردھنوی کے ناول ‘معرکہ سومناتھ’ پر پابندی لگائی گئی۔ اسٹینلے وولپرٹ کی نائن آوز ٹو راما پر 1962 میں پابندی عائد کی گئی۔ اس کے اگلے سال برٹرینڈ رسل کی ان آرمڈ وکٹری ممنوع قرار دی گئی۔
وی ایس نائپال کی این ایریا آف ڈارکنیس، تامل ناڈو کے ایک لیڈر پیریار راماسوامی کی ’دی رامائن: اے ٹرو ریڈنگ‘ بھی اس لسٹ میں ہے۔ 1983 میں امریکی تفتیشی صحافی سیمیور ہرش کی کتاب، ’1989 میں زوہیر کشمیری‘ اور برائن میک انڈریو کی کتاب ’سافٹ ٹارگیٹ: ہاؤ دی انڈین انٹلی جنس سروس پینیٹریٹیڈ کینیڈا‘ پر پابندی لگائی گئی۔ تاہم ایک ساتھ 25 معروف کتابوں پر پابندی کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
ہندوستان میں اس پر شدید ردعمل ہوا ہے۔ بہت سے دانشوروں، ادیبوں، سیاسی رہنمائوں نے اس پر احتجاج کیا ہے، مضامین اور سوشل میڈیا پوسٹوں کا سلسلہ جاری ہے، تاہم بی جے پی حکومت اور ان کی سفاک انتظامیہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔
کشمیری صحافیوں، دانشوروں کا خیال ہے کہ اصل مقصد طالب علموں اور ریسرچ اسکالرز کو اندھا بنانے کی کوشش ہے کیونکہ کشمیر پر کہیں بھی کوئی تحقیق کرنی ہے یا مقالہ لکھنا ہے، تو ان کتابوں کے بغیر ناممکن ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ رواں سال کے اوائل میں مقبوضہ کشمیر میں پولیس نے متعدد کتاب فروشوں پر چھاپے مارے تھے اور تقریباً 668 کتابیں ضبط کیں۔ 2 سال قبل کشمیر کی جامعات نے مرکزی حکومت کے دباؤ پر علامہ اقبال، آغا شاہد علی اور فیض احمد فیض جیسے مشہور شعرا کے کلام کو اپنے نصاب سے خارج کر دیا۔
سید افتخار گیلانی کی رپورٹ کے مطابق، “موجودہ پابندیوں کو ایک بڑے بیانیے کا حصہ سمجھنا چاہیے۔ یہ یاداشتوں کو کھرچنے کا عمل ہے۔ یہ عمل کئی دہائیوں سے جاری ہے، اگرچہ 2019 کے بعد یہ بے حد بڑھ گیا ہے۔ یہ بار بار باور کرایا جا رہا ہے، جیسے ہندوستان کو آزادی وزیراعظم نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد 2014میں ملی اور کشمیر کو یہ آزادی 2019 میں نصیب ہوئی۔ لہٰذا اس سے قبل کے دور کو دورِ غلامی یا تاریک دور کے طور پر ہی یاد کیا جاسکتا ہے۔ کشمیر کے اخبارات کے آرکائیوز بند کردیے گئے ہیں۔ پچھلے 30 سالوں میں اس خطے پر کیا قیامت برپا ہوگئی، اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔
“یاداشتوں کو کھرچنے کا عمل یا ایک حصہ 13 جولائی 1931 کی بغاوت کی یاد کو مٹانے کی کوشش تھی۔ کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر نے لوگوں کو شہدا کے قبرستان میں جمع ہونے ا ور فاتحہ پڑھنے پر ہی پابندی لگادی۔ یہ تاریخی واقعہ کشمیریوں کی اجتماعی یادداشت کا حصہ ہے اور 2019 تک پارٹی اور نظریاتی وابستگیوں سے بالاتر یادگاری تقریبات منعقد کی جاتی تھیں۔ اس سال ایک وزیراعلیٰ کو بند گیٹ پھلانگنے پر مجبور ہوکر اس مزار میں داخل ہونا پڑا۔”
افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ کشمیریوں کی نئی نسل کی یادداشتوں کو مٹانے کی ان کوششوں کا ایک حصہ عظیم کشمیری لیڈر سید علی گیلانی کے کردار کو تاریخ کے صفحات سے غائب کرنے سے متعلق ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں سید علی گیلانی کی دیوقامت شخصیت کے بارے میں ہر ممکن کوشش ہورہی ہے کہ لوگ ان کے بارے میں کچھ نہ جانیں، اخبارات اور میڈیا میں بھی کچھ نہ چھپے۔
کم لوگ جانتے ہوں گے کہ سید علی گیلانی کے انتقال کے بعد انڈین پولیس ان کے گھر سے گیلانی صاحب کی کتب، نوٹس وغیرہ اور ان کی پرسنل لائبریری بھی لے گئی۔ کسی شخص کی ذاتی کتب اور لائبریری کو آخر کون اور کیوں لے جائے گا؟ بھارتی حکومت نے مگر ایسا گھٹیا اور کم ظرفی کا کام کیا ہے۔ گیلانی صاحب 40 سے زائد کتابوں کے مصنف تھے، مگر اب یہ صفحہ ہستی سے مٹتی نظر آرہی ہیں۔ ان کی کتابیں مقبوضہ کشمیر میں دستیاب نہیں اور نہ ہی کسی پبلشر کو انہیں دوبارہ سے چھاپنے کی اجازت ہے۔ جو لوگ سید علی گیلانی کے ساتھ کام کرتے تھے، پچھلے 5 برسوں سے وہ بھارتی جیلوں میں پڑے سڑ رہے ہیں۔ بی جے پی حکومت چاہتی ہے کہ سید علی گیلانی کا نام ہی کوئی نہ لے، ان کا تذکرہ کہیں پر نہ ہو، ان کی برسی پر تقریب نہ کی جاسکے، سید علی گیلانی کی کوئی کتاب، مضمون کہیں پر نظر نہ آئے۔ سید علی گیلانی کی قبر کے پاس ایک فوجی بنکر بنایا گیا ہے تاکہ کوئی وہاں پر فاتحہ پڑھنے ہی نہ آسکے۔ لوگوں کو زندہ علی گیلانی سے تو نہیں ملنے دیا جاتا رہا، اب ان کی قبر پر آنے سے بھی روک دیا۔
پچھلے کچھ عرصے میں مقبوضہ کشمیر کے بعض صحافیوں اور کتاب دوست لوگوں سے بات ہوئی تو وہ سب اس پر متفکر اور پریشان تھے۔ ان لوگوں نے مگر یہ سوال اٹھایا کہ چلیں بھارت میں تو یہ سب ہورہا ہے، بھارتی حکومت ایسا کررہی ہے اور اس سے امید ہی کیا ہے؟ مگرپاکستان نے سید علی گیلانی کے لیے کیا کیا ہے؟
جس واٹس ایپ گروپ کا ذکر کیا، اس میں چیٹ کے دوران بھی یہی سوال زیر بحث آیا۔ اسلام آباد کے ایک لکھاری دوست نے نشاندہی کرکے ہمیں مکمل شرمندگی سے بچایا کہ شکرپڑیاں، اسلام آباد میں واقع یادگار پاکستان میں ایک سید علی گیلانی کارنر موجود ہے۔
سوال مگر یہ ہے کہ پنجاب اور لاہور میں اس حوالے سے کیا کچھ ہوا ہے؟ سید علی گیلانی کا لاہور سے گہرا تعلق رہا ہے، وہ ایک زمانے میں کئی برس تک لاہور میں پڑھتے رہے، اپنی سوانح میں انہوں نے لکھا کہ وہ مسجد وزیر خان میں مدرسے میں پڑھے اور قاری لطیف صاحب نے انہیں کئی سپارے حفظ کرائے۔ گیلانی صاحب نے محبت سے لکھا کہ آس پاس کے لوگ باہر سے آنے والے طلبہ کو مفت کھانے کھلایا کرتے تھے۔ گیلانی صاحب 50 کے عشرے میں لاہور میں پڑھاتے رہے، پھر وہ جرنلزم میں آگئے، رسالے بھی ایڈٹ کرتے رہے، حتیٰ کہ پھر مقبوضہ کشمیر میں زیادہ بڑے محاذ پر لڑائی لڑنے چلے گئے۔
لاہور میں مختلف مشاہیر کے حوالے سے شہر کے انڈرپاسز کے نام رکھے گئے ہیں، ان میں تحریک پاکستان کے قائدین کے علاوہ ممتاز بلوچ سردار چاکر خان رند اور 16ویں صدی کی ممتاز کشمیری شاعرہ حبہ بیگم بھی شامل ہیں۔ کیا ہی خوب ہو کہ ایک انڈر پاس سید علی گیلانی مرحوم سے منسوب کیا جائے۔ مسجد وزیر خان میں بھی ایک سید علی گیلانی کارنر بنایا جاسکتا ہے، ان کی یادگاری تختی لگا دی جائے۔ وہاں بہت سے غیر ملکی بھی وزٹ کرتے رہتے ہیں، اچھا ہے کہ اس قرینے سے کشمیر محاذ بھی نمایاں ہوتا رہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف خود کشمیری ہیں، ان کی توجہ اگر اس جانب مبذول کرائی جائے تو یقینی طور پر لاہور میں 2، 3 جگہوں پر یہ سب فوری ہوسکے گا۔
سب سے زیادہ ضروری ہے کہ پاکستان میں سرکاری سطح پر ایک سید علی گیلانی فاونڈیشن بنائی جائے جو گیلانی صاحب کا لکھا تمام کام محفوظ کرے۔ ہارڈ کاپی اور سافٹ کاپی میں ان کی کتاب، پمفلٹس اور مضامین سنبھال لیے جائیں، انہیں مختلف انٹرنیٹ آرکائیوز ویب سائٹس پر ڈالا جائے تاکہ انڈیا میں موجود مسلمان بھی رسائی حاصل کرسکیں۔ ویسے اگر ممکن ہو تو گیلانی صاحب کے کام کو دیوناگری اسکرپٹ میں بھی پیش کیا جائے تاکہ اردو نہ جاننے والے بھارتی بھی مستفید ہوسکیں۔ چیٹ جی پی ٹی اور دیگر اے آئی ٹولز کی مدد سے یہ باآسانی ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے مگر ضروری ہے کہ پہلے سید علی گیلانی فاونڈیشن بنائی جائے۔
یکم ستمبر کو علی گیلانی صآحب کی برسی ہے۔ اس موقعے پر اگر یہ بڑا قدم اٹھا لیا جائے تو یہ ہمارے مقبوضہ کشمیر کے بھائیوں کے لیے بہت اچھا اور مثبت پیغام ہوگا۔ آزاد کشمیر کی حکومت کو بھی اپنے طور پر ایسا کرنا چاہیے، تاہم ہم پاکستانیوں کو اپنے حصے کا قرض ادا کرنا چاہیے۔
سید علی گیلانی مجسم پاکستانی تھے، اپنی آخری سانسوں تک وہ پاکستان کی مالا جپتے رہے۔ اب ہماری باری ہے کہ ہم انہیں یاد رکھیں اور ان کی یادوں کو اپنی اگلی نسلوں تک پہنچائیں بلکہ ان کی یادداشتوں کو کھرچنے، مٹانے کی جو کوششیں بھارتی حکومت کر رہی ہے، اسے ناکام بنایا جائے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔