سابق وزیرِاعظم اور تحریک انصاف کے پیشوا عمران خان اس وقت سپریم کورٹ کی تحویل میں پولیس لائنز، اسلام آباد کے گیسٹ ہاؤس میں موجود ہیں۔ اس جملے میں پیشوا کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ رہنما راستہ دکھاتے ہیں جب کہ پیشوا اپنے گرد شخصیت پرستی کا جال بُنتے ہیں۔
گوکہ تمام جماعتوں کے کارکن اپنے رہنما کو بہتر سمجھتے ہیں لیکن پیشوا جس جماعت کے سربراہ ہوتے ہیں وہ عقیدت مندوں اور شخصیت پرستوں سے بھری ہوتی ہیں۔ ایسی جماعتوں کے پیشوا جو بھی کہہ دیں ان کے پیروکار اس بات پر یقین کرلیتے ہیں بلکہ مرنے مارنے پر بھی تیار ہوجاتے ہیں۔
ہم نے دیکھا کہ اس ملک میں بڑے بڑے جمہوری رہنما گزرے لیکن ایک یا دو ہی پیشوا کے درجے پر پہنچے اور اپنے پیروکاروں کو اس حد تک لے گئے کہ وہ خود سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے ہی محروم ہوجائیں۔
عمران خان سے قبل یہ درجہ الطاف حسین کو حاصل تھا لیکن ان کی تباہی کا دائرہ کار صرف کراچی اور حیدر آباد تک محدود رہا۔ عمران خان کا نشانہ پورا ملک ہے اور اسی ملک کے آئین اور جمہور کو ان سے شدید خطرات ہیں۔
اگرچہ اس وقت عمران خان سرکاری تحویل میں موجود ہیں، تاہم انہیں سنگین الزامات کے باوجود ایک سال تک ہاتھ نہیں لگایا گیا تھا۔ جس طرح انہوں نے ملک کو نقصان پہنچایا، آئین کی بار بار خلاف ورزی کی اور بدعنوانیوں میں ملوث ہوئے ان سب کے ٹھوس شواہد موجود رہے ہیں۔ گوکہ ان شواہد کے ثابت ہونے تک ہم انہیں ملزم ہی لکھیں گے۔ لیکن الزامات بہت ٹھوس بنیادوں پر کھڑے ہیں۔
صرف اپریل 2022 کے آس پاس عمران خان کے تباہ کن اقدامات اور فیصلوں کا جائزہ لیا جائے تو بھی ان کی جرائم کی فہرست طویل ہوسکتی ہے۔
مثلاً ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے سے پہلے انہوں نے تیل کی قیمتوں کو منجمد کیا جس سے قومی خزانے کو اربوں کا نقصان ہوا۔ قیمتوں کا منجمد کیا جانا ملکی معیشت کے لیے تباہ کن تھا لیکن عمران خان نے صرف اپنی مقبولیت میں اضافہ کرنے کے لیے یہ قدم اٹھایا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ جنرل باجوہ سے ان کے تعلقات خراب ہونے کے بعد ان کے اقتدار کے دن گنے جاچکے تھے۔ قومی خزانے کو اس شدید نقصان پہنچانے کے جرم میں انہیں فوراً گرفتار کرلینا چاہیے تھا جو نہیں کیا گیا۔
پھر خود تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد عمران خان نے جس غیر قانونی اور غیر آئینی طریقے سے صدرِ پاکستان کو، اسمبلی کے اسپیکر اور نائب اسپیکر کو استعمال کیا وہ بھی ایک سنگین جرم کے مترادف تھا۔ پہلے تو کوشش کی گئی کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہی نہ کی جاسکے لیکن جب اسے روکنے کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں تو پھر غیر آئینی طور پر بار بار کوشش کی گئی کہ اسمبلی کا اجلاس ہی نہ بلایا جائے اور پھر جب اجلاس بلایا گیا تو پوری کوشش کی گئی کہ اس میں رائے شماری کو ہر ممکن طریقے سے روکا جائے۔
یہ سب غیر آئینی اقدام تھے، جو جرم ہیں اور جن پر گرفتاری عمل میں آنی چاہیے تھی۔ پھر جب اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے مزید غیر آئینی اقدام سے گریز کیا تو ان سے استعفیٰ دلواکر نائب اسپیکر قاسم سوری کو استعمال کیا گیا کہ وہ ایک نام نہاد بیرونی سازش کا بہانہ بناکر تحریک عدم اعتماد کو ہی رد کردیں لیکن یہ سب ہتھکنڈے ناکام ہوئے اور تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو ایک اور جمہوریت دشمن قدم اٹھاتے ہوئے اپنے ارکانِ اسمبلی سے استعفے دلوا دیے گئے اور مقصد یہ تھا کہ پارلیمان کو کام کرنے سے روکا جا سکے یہ بھی ایک احمقانہ فیصلہ تھا جس کی سزا خود ان کو ملی۔
اس سارے معاملے میں جب عمران خان جمہوری اور آئینی طریقے سے بے دخل ہوگئے تو احتجاجی سیاست کا ایک نیا دور شروع کیا اور مسلسل ملک کو بحران میں زیادہ سے زیادہ دھکیلنے کی کوشش جاری رکھی۔
اس بحران سے بچانے کے لیے ضروری تھا کہ عمران خان کو مسلسل رعایت دینے کے بجائے ان پر عائد سنگین الزامات جن کے شواہد موجود تھے کی بنیاد پر انہیں گرفتار کرلیا جاتا مگر اسٹیبلشمنٹ کی طرح عدلیہ میں بھی بڑی تعداد میں ایسے افسر اور جج موجود ہیں جو واضح طور پر عمران خان کو اپنا پیشوا سمجھتے رہے ہیں۔
سول اور فوجی افسر شاہی میں موجود عمران خان کے حامی کس طرح عمران خان کو تحفظ دینے کی کوشش کرتے رہے یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ درجنوں مقدمات جن میں عمران خان کی گرفتاری بہت پہلے ہوجانی چاہیے تھی ان میں مسلسل عمران خان کو یا تو ضمانت قبل از گرفتاری دی گئی یا پھر چند منٹوں میں ہی پیشی سے مبّرا قرار دے دیا گیا۔
اس کے بعد عمران خان مسلسل پیشی سے گریز کرتے رہے اور اپنے حامیوں کو ملا کر آمد و رفت میں خلل کا بہانہ استعمال کیا گیا لیکن پھر بھی عمران کو اس دانستہ مداخلت کارِ سرکار میں بھی گرفتار نہیں کیا گیا جبکہ کوئی عام ملزم تو کب کا پسِ دیوارِ زنداں ہوتا۔
اب عمران خان کی گرفتاری کے بعد جس طرح اس پیشوا کے پیروکاروں نے ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال پیدا کی اس کے ذمہ دار صرف اور صرف عمران خان ہیں جنہوں نے بار بار لوگوں سے سڑکوں پر آنے کی اپیل کی اور بڑے دھمکی آمیز لہجے میں سنگین نتائج دکھانے کا عزم کیا۔
اس سے قبل پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے بارہا جیل، پھانسیوں، کوڑوں اور اذیت ناک سزاؤں کا سامنا کیا ہے مگر انہوں نے کبھی اس طرح ملک پر اپنے اقتدار کو بچانے یا پھر اقتدار میں آنے کی کوشش نہیں کی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اب عمران خان ایک فسطائی عفریت کا روپ دھار چکے ہیں جس کا مقصد ہر قیمت پر موجودہ نظام کو نقصان پہنچانا اور اقتدار پر قبضہ کرنا ہے اور اس چکر میں انہوں نے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں پیروکاروں کو بدتمیزی اور تشدد کا راستہ دکھایا ہے۔
یہ سب انہیں الطاف حسین والے انجام کی طرف لے جارہے ہیں۔ الطاف حسين تو شروع سے تشدد پر یقین رکھتے تھے مگر عمران خان نے بتدریج یہ طرزِ عمل اپنایا ہے مگر عمران خان پورے ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں جس کی الطاف حسین میں طاقت نہیں تھی۔