بلوچستان پولیس نے صوبے میں پیش آنے والے کئی واقعات میں اپنی جانوں کی قربانیاں دی ہیں۔ جہاں دیگر سیکیورٹی فورسز کے ساتھ پولیس بھی کشیدہ حالات میں شورش زدہ علاقوں میں آگے بڑھ رہی ہے، وہیں پولیس کے جوانوں کو متعدد مشکلات کا سامنا ہے۔ صوبے میں دہشتگردی کے واقعات معمول بن چکے ہیں اور خضدار بھی ان خطرات سے مستثنیٰ نہیں۔
ان دہشتگردانہ سرگرمیوں سے نبرد آزما ہونے والی پولیس فورس کو مالی مشکلات اور نفری کی کمی جیسے مسائل درپیش ہیں، تاہم اس کے باوجود پولیس نے اعلیٰ کردار کا مظاہرہ جاری رکھا ہوا ہے۔ برطانوی دور کا پولیس قانون آج بھی اپنی اصلی شکل میں نافذ ہے، جس میں ترمیم نہ ہونے کی وجہ سے پولیس کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔
خضدار جو کہ ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہے، اور قریباً 10 لاکھ کی آبادی کا حامل ہے، اس شہر میں صرف 7 تھانے موجود ہیں جبکہ 3 تھانے قریباً 300 کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ علاوہ ازیں درجنوں پولیس اہلکار صرف دفتری سیکیورٹی کے فرائض پر تعینات ہیں، جس سے دیگر اہم علاقوں کی نگرانی متاثر ہوتی ہے۔
بلوچستان پولیس کے کئی دفاتر اور تھانے کرایہ پر چلائے جا رہے ہیں، اور دور دراز کے علاقوں میں کئی تھانے ناقص حالت میں ہیں۔ مزید برآں، مسلح عناصر کی جانب سے ان تھانوں پر حملوں اور دھمکیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
پولیس کے جوانوں کا مطالبہ ہے کہ تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے، محکمہ کی جانب سے ان کی جانوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کیے جائیں، اور تھانوں اور نفری میں اضافے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ امن و امان قائم رکھنا اور دہشتگردی کے خلاف مؤثر کارروائی کرنا آسان ہو سکے۔ مزید جانیے عامر باجوئی کی اس رپورٹ میں۔