امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں بھارتی سفارتخانے نے ایک ایسی لابنگ فرم کی خدمات حاصل کرلی ہیں جس کے قریبی روابط سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ سے رہے ہیں اور جو ماضی میں ان غیر ملکی اداروں کے حق میں وکالت کرتی رہی ہے جنہیں امریکی پابندیوں یا سخت اقدامات کا سامنا رہا۔
یہ معاہدہ اُس وقت سامنے آیا ہے جب بدھ سے بھارت کی برآمدات پر 50 فیصد ٹیرف نافذ ہونے جا رہا ہے، میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی سفارتخانہ مرکری پبلک افیئرز ایل ایل سی کو ہر ماہ 75 ہزار ڈالر ادا کرے گا تاکہ وہ حکومتی تعلقات، میڈیا ریلیشنز اور دیگر خدمات فراہم کرے، یہ معلومات 18 اگست کو جمع کرائی گئی ایک فائلنگ میں دی گئی ہیں۔
Market is nervous about the tariffs which come into effect on 27th Aug. India has hired a second lobbying firm at a cost of $75000 p.m to mitigate the situation. It has an earlier lobbyist at ₹150000 p.m. Both lobbyists are trying hard to get an extension or pause of the tariffs pic.twitter.com/FzO7Gz4h5P
— RJ Stocks (@RakJhun) August 25, 2025
مرکری کے پارٹنر برائن لانزا، جو صدر ٹرمپ کی ٹرانزیشن ٹیم میں کمیونیکیشنز ڈائریکٹر رہ چکے ہیں، اس معاہدے میں شامل افراد میں درج ہیں۔ وائٹ ہاؤس کی موجودہ چیف آف اسٹاف سوزی وائلز بھی کبھی مرکری کی شریک چیئر رہی ہیں۔
یہ پیش رفت اس وقت ہوئی ہے جب حالیہ مہینوں میں امریکا اور بھارت کے تعلقات تیزی سے خراب ہوئے ہیں، وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا ہے کہ بدھ سے بھارتی مصنوعات پر 50 فیصد ٹیرف عائد کیا جائے گا تاکہ نئی دہلی کو روسی تیل کی خریداری پر سزا دی جاسکے۔
یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ پیوٹن مذاکرات ناکام ہوئے تو بھارت پر مزید ٹیرف لگائیں گے، امریکا کی مودی سرکار کو وارننگ
واشنگٹن کا مؤقف ہے کہ روسی تیل کی خریداری روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی جنگ کو مالی مدد فراہم کرتی ہے، تاہم بھارتی حکام کہتے ہیں کہ یہ اقدام عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کے لیے ہے اور امریکا نے پہلے اس پراعتراض نہیں کیا تھا۔
امریکا بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور نئی دہلی کو خدشہ ہے کہ بھاری ٹیرف برآمد کنندگان کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے، اس کے باوجود بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ امریکا کے ساتھ بہتر تعلقات ان کی ترجیح ہیں۔

بھارتی وزیرِ خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے حالیہ بیان میں کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی معاہدے پر مذاکرات جاری ہیں حالانکہ معاملات رکے ہوئے ہیں، جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کو ’مردہ معیشت اور ناقابلِ برداشت تجارتی رکاوٹوں‘ کا حامل ملک قرار دیا ہے۔
مرکری کا ماضی بھی غیر ملکی کلائنٹس کے لیے متنازع لابنگ سے جڑا رہا ہے، یہ فرم اس سال کے شروع میں ڈنمارک کے سفارتخانے کے لیے کام کرچکی ہے، جو گرین لینڈ پر ٹرمپ کے قبضے کے منصوبے کے خلاف تھا۔
مزید پڑھیں: روسی تیل اور بھارتی ریفائننگ، پیسے کس نے کھرے کیے؟
اسی طرح، 2018 میں مرکری نے چینی کمپنی ہائک ویژن کے لیے لابنگ کی تھی جس پر سنکیانگ میں نگرانی کے منصوبوں کے سبب امریکا نے قدغن لگائی تھی، یہ فرم پابندیوں کی زد میں آنے والی چینی کمپنی زیڈ ٹی ای کے حق میں بھی سرگرم رہی۔
اس کے علاوہ، بھارتی ارب پتی اور وزیر اعظم نریندر مودی کے قریبی ساتھی گوتھم اڈانی نے بھی صدر ٹرمپ کے دورِ حکومت میں واشنگٹن میں اپنی لابنگ سرگرمیوں میں اضافہ کیا ہے۔ وہ اس وقت مبینہ رشوت ستانی کے ایک مقدمے میں الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔














