’فارسی کوریڈور‘

منگل 26 اگست 2025
author image

رعایت اللہ فاروقی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ہمارے ہاں یہ تو سب جانتے ہیں کہ ایران اور امریکا کے بیچ کشمکش ہے۔ اور اس کشمکش میں ایران کو چونکہ روس کی پشت پناہی بھی میسر ہے، سو ایران کے حوالے سے روس اور امریکا کے بیچ بھی ایک سرد سی صورتحال چلتی آرہی ہے۔ مگر جب موقع آتا ہے یہ سمجھنے کا آخر ایران عالمی طاقتوں کے لیے اتنا اہم کیوں ہے؟ وہ اسے اس کے حال پر کیوں نہیں چھوڑ دیتے؟ تو کوئی کہتا ہے، یہ کشمکش ایرانی انقلاب اور اس کے نتیجے میں تہران میں پیش آنے والے واقعات کی وجہ سے ہے۔ اور کوئی کہتا ہے، ایران روس کے لیے دفاعی اہمیت رکھتا ہے سو امریکا کو ایران اسی حوالے سے درکار ہے۔ اور اگر کوئی ایسا مل جائے جس نے مذکورہ 2 مؤقف والوں سے سیاسی تاریخ تھوڑی زیادہ پڑھ رکھی ہو تو وہ معاملے کو محمد مصدق دور تک لے جاتا ہے۔ کم از کم ہم نے نہیں دیکھا کہ کسی نے مصدق دور سے پیچھے جھانکنے کی ضرورت محسوس کی ہو۔ آیئے جھانک کر دیکھتے ہیں کہ اس طرف کیا رکھا ہے؟

22 جون 1941 کو سوویت یونین پر نازی حملہ ہوا۔ حملے کی شدت کا اندازہ اس سے لگا لیجئے کہ 35 لاکھ نازی سپاہ نے سوویت سرحد عبور کی تھی۔ یہ دوسری جنگ عظیم ہی تھی جس میں امریکا بڑے پیمانے پر ’جنگی تجارت‘ کے اس نشے کا عادی ہوا تھا جو اب وہ چھوڑنے پر کسی صورت بھی آمادہ نہیں۔ جنگ کے پہلے 2 سالوں میں اس نے یورپ کو ’لینڈ لیز پروگرام‘ کے تحت سپلائی شروع کر رکھی تھی۔ اس پروگرام کے تحت ضرورت کی جملہ اشیا ادھار یا کرائے پر فراہم کی جاتی تھیں۔ امریکا کے لیے یہ فراہمی یوں آسان تھی کہ وہ خود جنگ سے دور رہ کر بس مال بنانے کے چکر میں تھا۔ وہ تو آگے چل کر جاپان نے پرل ہاربر پر حملہ کردیا ورنہ امریکا نے اس جنگ میں بس دکان ہی چلانی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: الاسکا: جیت کس کی ہوئی؟

سوویت یونین پر حملہ ہوا تو صورتحال یہ تھی کہ اس کی ہیوی انڈسٹری جنگ زدہ علاقے میں تھی۔ فوری طور پر یہ انڈسٹریز اکھاڑ کر یورال کے اس پار منتقل کرنے کا آپریشن شروع ہوا۔ جس کا مطلب تھا کہ اب کچھ مدت کے لیے سوویت یونین کو سپلائی کی کمی کا سامنا رہے گا۔ چنانچہ سوویت حکام نے فوری طور پر امریکی دکان سے رابطہ کیا۔ اس دکان سے براستہ آرکٹک سپلائی شروع ہوئی تو یہ سپلائی لائن جرمن حملوں کی زد میں آگئی۔ یوں کسی محفوظ راستے کی تلاش شروع ہوئی۔

جلد ہی راستہ مل گیا۔ ایران کے راستے سپلائی دی جا سکتی تھی۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس دور کا ایران ایک نہایت پسماندہ ملک تھا۔ سڑکیں کسی کام کی نہ تھیں، ریلوے لائن بوسیدہ اور بندرگاہیں خستہ حال۔ سو صدر روزویلٹ اور وزیر اعظم چرچل کے مابین طے پایا کہ ایران کو جدید دور کے سب سے بڑے ٹرانس شپمنٹ حب میں تبدیل کیا جائے۔ مگر ایک مسئلہ تھا۔ ایران کے بادشاہ رضا شاہ پہلوی نے سیاسی طور پر مؤقف تو یہ اختیار کر رکھا تھا کہ وہ جنگ میں غیر جانبدار ہیں۔ مگر جرمن حکام سے ان کے روابط بھی کھلے عام موجود تھے۔ ایران میں جرمنوں کی بڑی تعداد موجود تھی اور یہ سب ہٹلر کی طرف سے کسی نہ کسی مشن پر تھے۔ چنانچہ دوکاندار اور گاہک کے بیچ طے پاگیا کہ ایران کو گود لے لیا جائے۔

جب زمانہ جنگ کا ہو تو پھر گود لینے کی رسم ٹینکوں کی مدد سے انجام دی جاتی ہے۔ سو 25 اگست 1941ء کو ایران پر 2 جانب سے حملہ ہوگیا۔ شمال اور قفقاز کی سمت سے سوویت آرمی اور جنوب سے برٹش آرمی ایران میں داخل ہوگئی۔ اس آپریشن کا کوڈ نام ’آپریشن کاؤنٹینینس‘ تھا جو صرف 3 دن میں 28 اگست کو مکمل ہوگیا۔ بادشاہ سلامت سے صاف صاف کہہ دیا گیا کہ ساتھ دیجیے یا پرلوک سدھاریے۔ وہ شاید نازیوں سے کسی بڑی شراکت میں تھے سو ان کے لیے وفاداری بدلنا مشکل ثابت ہو رہا تھا۔ یوں خود بادشاہ سلامت نے تیسری تجویز پیش کردی۔ جو منظور کرلی گئی۔ وہ تاج و تخت اپنے ولی عہد 22 سالہ محمد رضا شاہ پہلوی کے سپرد کرکے موریشس جلا وطن ہوگئے، جہاں سے وہ ساؤتھ افریقہ منتقل ہوئے اور وہیں فوت ہوئے۔ ان کا ولی عہد کیسا ثابت ہوا؟ اس کا اندازہ اسی سے لگا لیجیے کہ یہی آگے چل کر مشہور زمانہ ’شاہ ایران‘ کہلایا۔

یہ بھی پڑھیے: 14 اگست اور جبری تاریخ

راتوں رات امریکی انجینیئرز ہیوی مشینری سمیت ایران پہنچنے لگے۔ جلد ہی ان کی تعداد 10 ہزار سے بھی تجاوز کر گئی۔ شط العرب پر واقع 2 ایرانی بندرگاہیں خرم شہر اور ابادان کی ہی ماڈرنائزیشن شروع نہ ہوئی۔ بلکہ ان بندرگاہوں کو کیسپئن سی سے براستہ روڈ و ریلوے جوڑنے کا منصوبہ بھی تیزی سے تعمیری مراحل طے کرنے لگا۔ یہ فاصلہ لگ بھگ 1400 کلومیٹر کا تھا۔ اس زمانے کی ایرانی ریلوے اس قدر از کار رفتہ تھی کہ یومیہ بس ایک ہزار ٹن مال ہی منتقل کرسکتی تھی۔ جبکہ سوویت یونین کو لاکھوں ٹن سپلائی درکار تھی۔ سو ماڈرن امریکی ریلوے استعمال کرنے کا فیصلہ ہوا۔ جس کے لیے نئی پٹریاں بچھانے، نئی بوگیاں اور انجن ایران لانے کا منصوبہ بنا۔ دارالحکومت تہران کو جدید اور کشادہ سڑکوں کے ذریعے ہر سمت میں موجود اہم شہر سے جوڑا جانے لگا۔ اور وسیع و عریض گودام، ورکشاپس، اور طیاروں کی اسمبلی لائنز بننے لگیں۔

غیرت ایمانی تو ہر طرح کے مسلمان کی جاگتی ہے۔ مگر شیعہ کی کچھ زیادہ تیزی سے جاگ جاتی ہے۔ اس کے تدارک کے لیے ایرانیوں کو جدید تعلیم اور صحت کی سہولیات کی فراہمی شروع کردی گئی تاکہ وہ بھی خوش رہیں۔ اسی منصوبے کے تحت ہزاروں ایرانیوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا بھی بھیجا گیا۔ جو آگے چل کر شاہ ایران کی بیوروکریسی بنے۔ جلد ہی ایران اس خطے کا سب سے بڑا لاجسٹک حب تھا۔ ’فارسی کوریڈور‘ تیار ہوگیا اور اس سے سپلائی بھی شروع ہوگئی۔ ساتھ ہی ایک اور منصوبہ بھی چپکے سے لانچ ہوگیا۔ ایران کو مغربی بنانے کی سکیم رو بعمل ہوگئی تھی۔ سنیما بن گئے اور ایرانی مغربی موویز کا لطف لینے لگے۔ ہر رنگ کی شراب ہی نہیں ڈانس کلب بھی آباد ہونے لگے۔ کچھ آیت اللہ اس پر سیخ پا ہوئے مگر ان سے بھی بڑے آیت اللہ موجود تھے۔ انہوں نے پاس بلا کر سمجھا دیا کہ جرمنوں سے اسلام کو شدید خطرہ ہے۔ لہذا جو چل رہا ہے وہ چلنے دو۔ چھوٹے آیت اللہ بات سمجھ گئے، یوں مغربیت کو فری ہینڈ مل گیا۔

سوویت یونین کو اس کوریڈور سے کل سپلائی کا صرف 27 فیصد گیا تھا۔ مگر ذیل کے اعداد و شمار سے اندازہ لگا لیجیے کہ وہ 27 فیصد کتنا تھا۔

475000  ٹرک

12،000  بکتر بند گاڑیاں

2،000 لوکوموٹیو (ریلوے انجن)

11،000 ریل کی بوگیاں

14،795  حربی طیارے (ایران میں اسمبل ہوتے)

7،000 سے زیادہ ٹینک

8،000  اینٹی ایئرکرافٹ گنز

3،800 اینٹی ٹینک گنز

4.5  ملین ٹن خوراک

15  ملین جوڑے فوجی بوٹ

19 ملین ٹن اسٹیل

450،000  ٹن بارود

3 لاکھ کلومیٹر ٹیلیفون کیبل

تقریباً 2،000 ریڈیوسٹیشن

1،900 کلوٹن ایلومینیم

اور یہ سب مال اس زمانے کے ریٹ کے مطابق 11 ارب ڈالرز کا تھا۔

فارسی کوریڈور سے لاکھوں ایرانی بھی کسی نہ کسی درجے میں وابستہ ہوچکے تھے مگر اس کوریڈور کو فی الحقیقت ہزاروں امریکی چلا رہے تھے۔ جنگ ختم ہوئی تو امریکا اگلے 6 ماہ میں اپنی ورک فورس نکال لے گیا۔ برطانیہ اور سوویت یونین کی تو وہاں فوج موجود تھی۔ اب بھلا فوج بھی کوئی شوق سے نکالتا ہے؟ سو یہ تھوڑا کسمسائے۔ مگر جب عالمی دباؤ آیا تو پہلے برطانیہ اور پھر سوویت یونین نے بھی اپنی فوج نکال لی۔ سوویت یونین تو واقعی چلتا بنا۔ مگر برطانیہ اور امریکا کچھ عرصے بعد پچھلی گلی سے ایم آئی 6 اور سی آئی اے اہلکاروں کی شکل میں واپس آگئے۔ آگے آپ جانتے ہی ہیں کہ شاہ ایران اور اس کے سرپرستوں نے پھر وہاں کیا کچھ کیا۔

مزید پڑھیں: پاکستان کا عالمی قد کاٹھ

’اسلام کو جرمنوں سے خطرہ ہے‘ کے نام پر ایران سے اسلام ہی کوچ کرگیا تو پھر آیا آیت اللہی انقلاب۔ ظاہر ہے انقلاب کو امریکا اور برطانیہ سے خطرہ بھی تو تھا۔ مدد کہاں سے آئی؟ انہیں سے جن کے لیے فارسی کوریڈور بنا تھا۔ سوویت لوٹ آئے۔ اور جب سوویت نہ رہے تو روس نے جگہ لے لی جو آج بھی موجود ہے۔ امید ہے اب آپ کو سمجھ آگیا ہوگا کہ ایران قضیے کی بنیاد کیا ہے؟ اور اس کی جڑیں کہاں تک پھیلی ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp