وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان ماحولیاتی چیلنجز سے تنہا نہیں نمٹ سکتا، اس کے لیے عالمی برادری کو پاکستان کی مدد کرنا ہوگی۔
نیو انرجی وہیکل پالیسی کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ ان کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنا ایک بڑا چیلنج ہے اور پاکستان کو اس سلسلے میں دنیا کی معاونت درکار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بارشوں کی وجہ ماحولیاتی تبدیلی ہے، وزیراعلیٰ سندھ نے کراچی شہر کے ڈوبنے پر خود کو بری الذمہ قرار دیدیا
انہوں نے کہاکہ خیبرپختونخوا میں حالیہ سیلاب کے نتیجے میں بستیاں مٹ گئیں، بادل پھٹنے، فلیش فلڈنگ اور دریاؤں میں طغیانی سے جانی و مالی نقصانات ہوئے۔
وزیراعظم نے یاد دلایا کہ 2022 میں آنے والے سیلاب نے بھی سینکڑوں جانیں لیں اور اربوں روپے کی املاک تباہ کیں۔ اس سیلاب سے 30 ارب روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا، حالانکہ پاکستان کا گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
تقریب کے دوران ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے طلبہ میں الیکٹرک بائیکس تقسیم کی گئیں۔
اس موقع پر وزیراعظم نے کہاکہ وہ تمام اسٹیک ہولڈرز اور برطانوی حکومت کے مشکور ہیں جنہوں نے پالیسی سازی میں معاونت فراہم کی۔ ان کے مطابق یہ نئی پالیسی حکومت کے ماحول دوست اقدامات کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
شہباز شریف نے مزید کہاکہ ہارون اختر نے صوبائی حکومتوں سے مشاورت کے بعد جو پالیسی مرتب کی ہے، اس کے ذریعے طلبہ کو میرٹ پر الیکٹرک بائیکس دی جا رہی ہیں۔
اس سے قبل وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صنعت و پیداوار ہارون اختر نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ نئی انرجی وہیکلز پالیسی انڈسٹری کی جدید کاری میں اہم کردار ادا کرے گی اور اس سے روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے۔
انہوں نے کہاکہ اس پالیسی کے تحت پیٹرولیم مصنوعات کی کھپت میں نمایاں کمی ہوگی اور فضائی آلودگی میں بھی خاطر خواہ کمی آئے گی۔
ہارون اختر کے مطابق سبز انقلاب پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے اور ہم دنیا کے سامنے خود کو ایک صاف اور سرسبز ملک کے طور پر پیش کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: ماحولیاتی تبدیلی: پنجاب حکومت کا موٹرسائیکل سے متعلق اہم فیصلہ سامنے آگیا
انہوں نے کہاکہ نئی انرجی وہیکلز پالیسی کا اجرا خواب کو حقیقت میں بدلنے کے مترادف ہے، وزیراعظم کے وژن کے تحت مشترکہ کاوشیں آج کامیاب ہوئیں اور پالیسی کو عالمی قوانین کے مطابق تشکیل دیا گیا ہے۔