اسٹالن کے عوامی محل

جمعرات 28 اگست 2025
author image

رعایت اللہ فاروقی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

15 مئی 1935 کو ماسکو کی ویلادیمیر لینن میٹرو سروس کا افتتاح ہوا تو ماسکو کے شہریوں کی خوشی دیدنی تھی۔ جدید ترین سفری سہولت پاکر کون خوش نہ ہوگا؟ مگر ماسکو میں تعینات غیر ملکی سفارتکار بھی مرکزی اسٹیشن دیکھ کر چونک اٹھے۔ انہیں خیال گزرا کہ شاید مرکزی ہونے کے سبب صرف اس اسٹیشن کا معیار غیر معمولی ہے۔ مگر یہ خیال اسی روز ہرن ہوگیا۔ 11 کلومیٹر پر مشتمل میٹرو کے تمام 13 اسٹیشنز فن تعمیر اور تزئین و آرائش کے اعلی ترین نمونے تھے۔ شاندار ہالز، دیدہ زیب ستون اور کشادہ گیلریاں پہلی ہی نظر میں بتا دیتی تھیں کہ اسٹیشنز کو نیوکلاسیکل، آرٹ ڈیکو، اور سوویت ریئلسٹ اسٹائل میں تعمیر کیا گیا ہے۔

آرائش کے لیے سنگ مرر، گرینائڈ، کانسی اور بیلجیم سے امپورٹ کیے گئے رنگ برنگے شیشوں کا استعمال وافر تھا۔ دیواروں اور چھتوں کو موزیک، فریسکو اور ایسے مجسموں سے سجایا گیا تھا جو سوویت عوام کی قربانیوں، محنت اور کامیابیوں کی تصویری کہانیاں سنا رہے تھے۔ ہالز کی چھتوں سے لٹکے شاندار فانوس ہر آنکھ کو الگ سے اپنی طرف متوجہ کرتے۔

یہ بھی پڑھیں: ’فارسی کوریڈور‘

تمام اسٹیشنز کسی ایک ہی لگے بندھے ڈیزائن پر نہ تھے بلکہ ہر اسٹیشن کی اپنی ایک ’تھیم‘ رکھی گئی تھی۔ مثلا کومسومولسکایا اسٹیشن سب سے شاندار مانا گیا تھا۔ اس کی چھتیں باروک طرز پر بنی تھیں، سنہری بارڈر والے بڑے بڑے موزائیک، جن میں روسی ہیروز اور فتوحات کو دکھایا گیا تھا۔ یہ اسٹیشن آج بھی ماسکو میٹرو کی خوبصورتی کی علامت کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ ایک اور اسٹیشن مایاکوفسکایا، سوویت آرٹ ڈیکو کا شاہکار نظر آرہا تھا۔ اس کی چھت پر 34 موزائیک پینل تھے جنہیں مشہور مصور الیگزینڈر ڈیئنےکا نے بنایا تھا۔ موضوع تھا ’سوویت آسمان تلے مستقبل‘۔ اسٹین لیس اسٹیل، گلابی گرینائٹ اور روشنی کا حسین امتزاج اسے جدید اور پر وقار بناتا رہا تھا۔ یہ سب دیکھ کر ایک مبہوت مغربی سفارتکار کے منہ سے بے اختیار نکلا

’یہ میٹرو اسٹیشن ہے یا محل؟‘

اسٹیشن ماسٹر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا

’جی ہاں یہ محل ہے۔ کامریڈ سٹالن کا حکم تھا کہ ہر اسٹیشن عوامی محل نظر آنا چاہیے‘

مختلف ممالک کے سفارتکار تو ان اسٹیشنز کے حسن میں مبہوت رہ گئے تھے۔ مگر جرمن سفارتکاروں نے ان میں ایک اور چیز بھی نوٹ کر لی تھی۔ اور اس کی اطلاع فوری طور پر برلن بھجوائی تھی۔ ماسکو کے جرمن سفارتخانے سے آنے والے پیغام میں بتایا گیا تھا

’اس میٹرو کی دیواریں غیر معمولی طور پر موٹی ہیں۔ بالخصوص محرابیں دو سے ڈھائی میٹر موٹی ہیں۔ اسٹیشنز کی زمین میں گہرائی 20 سے 35 میٹر تک ہے۔ یہ محض میٹرو اسٹیشنز نہیں ہوسکتے۔

سنہ1938  تک ماسکو میٹرو کا دوسرا مرحلہ بھی مکمل ہوگیا۔ یوں اب اس کی لمبائی 22 کلومیٹر اور 22 ہی اسٹیشنز کی بھی تعداد ہوگئی۔ گویا اس پروجیکٹ کا دائرہ تیزی سے وسیع ہو رہا تھا جس سے متعلق ماسکو کی جرمن ایمبیسی نے شبہ ظاہر کیا تھا کی یہ محض ریلوے اسٹیشنز نہیں لگتے۔ چنانچہ سنہ 1939 میں جرمن جاسوسوں کو ٹاسک دیا گیا کہ وہ اس پروجیکٹ سے متعلق ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی نوٹ کرکے فورا بھیجیں۔ جلد ہی کچھ ماہرین تعمیرات اور فوجی افسران نے بھی سیاحوں کے بھیس میں ہر اسٹیشن کو وزٹ کیا۔ انہوں نے جو کچھ نوٹ کیا ان میں سے 3 چیزوں نے ہٹلر کو چونکایا۔

٭ ہر اسٹیشن کو اس حد تک واٹر پروف بنایا گیا ہے کہ سیلاب بھی متاثر نہیں کرسکتا۔ اگر پانی داخل بھی ہوگیا تو تو نکاسی کے لئے نہایت طاقتور ڈرینج سسٹم کا انتظام ہے۔

٭ ہر اسٹیشن کو نہایت طاقتور وینٹی لیشن اور فلٹریشن سسٹم کی مدد سے کیمیاوی حملے سے محفوظ بنایا گیا ہے۔

٭ ہر اسٹیشن کے داخلی راستوں کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اگر شہر قبضہ بھی ہوجائے تو میٹرو مزاحمتی قلع بن سکے۔

کہتے ہیں جب ہٹلر کو ان تفصیلات کے ساتھ ساتھ ماسکو میٹرو کی تصاویر دکھائی گئیں تو وہ دنگ رہ گیا۔ اسے یقین نہ آیا کہ کمتر درجہ بلکہ انسان نما روسی اتنے شاندار اسٹیشنز استعمال کر رہے ہیں۔ اسے یہ انسانیت کی توہین لگی۔ سو اس نے طے کیا کہ وہ انہیں باقی نہیں رہنے دے گا۔ چنانچہ سوویت یونین پر یلغار کے لیے چنے گئے جرمن کمانڈر فیلڈ مارشل فیودر فان بوخ کو حکم دیا کہ وہ ان اسٹشنز کی تباہی کا منصوبہ ابھی سے ترتیب دیدے۔ فیلڈ مارشل نے انٹیلی جنس رپورٹس منگوائیں تو سب سے پہلے فضائی حملہ خارج از امکان ہوگیا۔ کیونکہ اسٹیشن کافی گہرائی میں تھے۔ اسٹیشنز اور ٹنلز کی تفصیلات دیکھ کر انجینئر کور والوں نے کہا، ہر محراب اور ستون کے لئے کم از کم 5 ٹن تک کے ہائی ایکسپلوسِو چارجز استعمال کرنے پڑیں گے اور ہر اسٹیشن کے لیے مجموعی طور پر 500 ٹن بارود درکار ہوگا۔ اور اس پر بھی عمل تب ہوسکے گا اگر کسی نے ہمیں اسٹیشنز میں گھسنے کا موقع دیا۔ یوں یہ بھی خارج از امکان ہوگیا۔

ماسکو کی بغل سے گزرتے دریائے ماسکو کا بند توڑ کر میٹرو سسٹم کو ڈبونے کی آپشن دیکھی گئی تو وہ بھی خارج از امکان ہوگئی کیوں ہر اسٹیشن کی واٹر پروفنگ یوں کی گئی تھی کہ سیلاب بھی اسے زیر نہ کرسکے۔ آخری امکان کے طور کیمیاوی گیس کے استعمال پر بھی غور کرلیا گیا۔ مگر وہ وینٹی لیٹر سسٹم کے ذریعے ہی داخل کی جاسکتی تھی۔ جس کے لیے اگر ماسکو کی بجلی کاٹ کر وینٹی لیشن فلٹرنگ سسٹم کو روکنے کوشش بھی کی جاتی تو بیکار تھی کیونکہ ہر اسٹیشن بجلی کے معاملے میں خود مختار سب اسٹیشن سے جڑا تھا۔ ماسکو کی بجلی کاٹی جاسکتی تھی مگر ماسکو میٹرو کی نہیں۔ یوں ہٹلر نے حکم دیا کہ جلد میں خارش لاحق کرنے والا کوئی جراثیم تیار کیا جائے۔ ہم ماسکو میٹرو سے روسی کیڑے مکوڑوں کو اسی جراثیم کی مدد سے نکالیں گے۔ اور پھر ان محل نما اسٹیشنز کو جرمن سیٹلرز کے لئے رہائشی اسکیم میں بدلیں گے۔ مگر ایک اسٹیشن کو ہم ’میوزیم آف بولشیوک اسٹیوپڈٹی‘ میں بھی بدلیں گے۔

مزید پڑھیے: الاسکا: جیت کس کی ہوئی؟

سنہ 1941  میں سوویت یونین پر حملہ ہوا تو جرمن خدشات حقیقت کا روپ دھار گئے۔ جنگ کے ابتدائی ایام میں فضائی حملے کی وارننگ جاری ہونے پر یومیہ ڈیڑھ لاکھ شہری پناہ کے لئے ماسکو میٹرو کا رخ کرتے۔ اور جب جرمن فوجیں ماسکو کے بالکل قریب پہنچ گئیں تو یومیہ پناہ لینے والوں کی تعداد 5 لاکھ تک پہنچ گئی۔ ان اسٹیشنز پر کھانے پینے کا ہی انتظام نہ تھا بلکہ ایکسرے اور آپریشن تھیٹر کی سہولیات سے لیس میڈیکل یونٹس بھی وارڈز کی سہولت سمیت موجود تھے۔ اگر یہ کم حران کن لگے تو اس میں تھیٹر اور لائبریری کی سہولیات کا بھی اضافہ کرلیجیے۔ مگر کیا یہی سب تھا بس؟

نہیں، ماسکو لڑائی کی سب سے اہم کمانڈ پوسٹ زیر زمین میٹرو میں ہی موجود تھی۔ جس کے ریڈیو رابطے کے لیے خصوصی اینٹینے وینٹی لیشن شافٹس سے گزار کر کھلی فضا تک پہنچائے گئے تھے۔ ہر اسٹیشن کی ورکشاپ کو چھوٹے ہتیھیار تیار کرنے والے عارضی کارخانے میں بدل دیا گیا تھا۔ چنانچہ رائفلز، پسٹل، دستی بم اور بارودی سرنگیں یہیں تیار کرکے فرنٹ لائن پر بھیجی جاتیں۔ مختلف لائنوں کے درمیان خفیہ ربطہ سرنگیں (جو عام مسافروں کے لیے نہیں تھیں) فوجی دستوں اور ساز و سامان منتقل کرنے کے لیے استعمال ہوئیں۔ ماسکو سے محض 35 کلومیٹر کے فاصلے تک آکر نازیوں کو ریورس گیئر لگ گیا تھا۔ اس صورتحال کو یاد کرکے بعد میں ایک جرمن کمانڈر کرنل گنٹر بلومنرِٹ نے کہا’’ہم نے ایسے ڈھانچے کو مٹانے کی ٹھانی جو رومی آبی نہروں اور جدید جرمن بنکروں سے زیادہ مضبوط تھا‘

جبکہ جنرل ہائنز گوڈیرین نے کہا

’ہم نے ایک فوج سے جنگ سوچ رکھی تھی، سامنے ایک تہذیب نکلی جو زیر زمین بھی مزاحمت جاری رکھ سکتی ہے‘

مزید پڑھیں: 14 اگست اور جبری تاریخ

آپ یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ اسٹالن اور اس کا کمیونزم تو کب کا وڑ چکا۔ ہم اس کی مداحی کس خوشی میں کر رہے ہیں؟ ہم مداحی نہیں کر رہے، بس متوجہ کر رہے ہیں کہ میگا پروجیکٹس کا شوق رکھنے والے ’شریف حکمران‘ اچھے وقت میں لاہوریوں کے بچاؤ کے لیے ایسا ہی کوئی منصوبہ سوچ لیں۔ یہ شہر ویسے بھی بارڈر کے بالکل قریب ہونے کی وجہ سے خاصا غیر محفوظ ہے۔

آپ ہماری بے بسی دیکھیے کہ خود کراچی میں رہتے ہیں مگر مشورے لاہور کے لیے دے رہے ہیں۔ کراچی کے لیے کسی ایسے منصوبے کا خواب تک نہیں دیکھ سکتے۔ کیونکہ یہاں وہ بھٹو مسلسل زندہ ہے جسے تعمیرات سے چڑ ہے۔ کراچی سے یاد آیا کہ یہاں جو لائبریریز اور پارکس وغیرہ 30 سال قبل رینجرز نے دفاعی استعمال کے لیے حاصل کیے تھے وہ اب تک انہیں کے پاس ہیں۔ سو لاہور والے احتیاطاً یہ منصوبہ بھی ابھی سے سوچ لیں کہ مجوزہ میٹرو منصوبہ اگر کسی جنگ میں دفاعی مقاصد کے لیے استعمال ہوگیا تو بعد از جنگ اسے واپس عوامی استعمال میں لانے کی صورت کیا ہوگی؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp