امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 50 فیصد ٹیرف عائد کیے جانے کے بعد جے پور کی قیمتی پتھروں اور جیولری کی برآمدات یکسر رک گئیں۔ شہر کی سب سے بڑی غیر ملکی زرمبادلہ کمانے والی صنعت کو شدید نقصان کا اندیشہ ہے اور جیولری مارکیٹ کے تنگ و پیچیدہ راستوں میں پریشانی کی فضا چھا گئی ہے۔
مشہور جوہری بازار سے لے کر ’گوپال جی کا راستہ‘ تک، جہاں صدیوں سے جیولرز کندن، پولکی اور میناکاری سے آراستہ زیورات تیار کرتے ہیں یا موتی و قیمتی پتھروں کی خرید و فروخت کرتے ہیں، سبھی بازار خاموش پڑ گئے ہیں۔
جیولری کی یہ صنعت نہ صرف سیاحت کے ساتھ جے پور کی معیشت کا ستون ہے بلکہ ریاست کی 18 ہزار کروڑ روپے مالیت کی برآمدات میں اہم حصہ رکھتی ہے۔ صرف امریکا کو ہر سال قریباً 3200 کروڑ روپے مالیت کی جیولری اور قیمتی پتھر برآمد کیے جاتے ہیں، جو اب مکمل طور پر متاثر ہو چکے ہیں۔
جم پیلس کے مالک سدھیر کاسلیوال، جن کے خاندان کو نسلوں سے جے پور کی شاہی فیملی کا ذاتی جیولر ہونے کا اعزاز حاصل ہے، کا کہنا ہے کہ ہمارے امریکا کو برآمدی آرڈر مکمل طور پر رک گئے ہیں۔ خریدار نئے آرڈر دینے سے انکار کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: کیا بھارت کی جانب سے امریکی ٹیرف پر ریلیف کی کوششیں کامیاب ہو سکتی ہیں؟
انہوں نے کہا کہ ان کی دکان پر آنے والے غیر ملکی سیاحوں میں 70 فیصد امریکی ہوتے ہیں، لیکن اب وہ بھی خریداری سے کترائیں گے کیونکہ وطن واپس لے جاتے وقت بھاری کسٹم ڈیوٹی دینا ہوگی۔
جے پور جیولرز ایسوسی ایشن کے صدر آلوک سونکھیا کے مطابق عام طور پر اس وقت ہمیں کرسمس کے آرڈر ملنے شروع ہو جاتے ہیں، لیکن اس سال ایک بھی آرڈر موصول نہیں ہوا۔ کئی برآمد کنندگان کے سامان امریکا پہنچ بھی گئے ہیں لیکن خریدار انہیں وصول نہیں کر رہے۔
صنعت میں قریباً 3 لاکھ کاریگر اور مزدور کام کرتے ہیں، جن کی روزی خطرے میں ہے۔ جمز اینڈ جیولری ایکسپورٹ پروموشن کونسل کے نمائندہ ڈی پی کھنڈیلوال نے بتایا کہ جے پور دنیا کی قریباً 20 فیصد مارکیٹ میں قیمتی پتھروں کی کٹنگ اور پالشنگ کا مرکز ہے۔ لیکن اگر پیداوار کم ہوئی تو روزگار بھی متاثر ہوگا۔
جیولری فیکٹری کے ایک کارکن گریش، جو روزگار کی تلاش میں 9 سال پہلے اترپردیش سے جے پور منتقل ہوئے تھے، نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر آرڈر کم ہوئے تو کام بھی کم ہوگا اور نوکریاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔ ہم کچھ اور کرنے کے قابل نہیں، اپنے خاندانوں کو کیسے سنبھالیں گے؟