دنیا کی توجہ عموماً امریکا اور یورپ کے ہتھیاروں پر مرکوز رہتی ہے، لیکن پسِ پردہ بیجنگ ایک ایسا اسلحہ جاتی نیٹ ورک بنا رہا ہے جو قیمت، رسائی اور شراکت داری کے اصولوں پر استوار ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستان کی فضا میں بھارتی غرور کی شکست: چینی ہتھیاروں کی دھاک اور بھارتی کوتاہیاں بے نقاب
خاص طور پر گلوبل ساؤتھ کے ممالک کے لیے یہ نیٹ ورک نہایت پرکشش ثابت ہورہا ہے۔
عالمی اعداد و شمار اور چین کی پوزیشن
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (SIPRI) کے 2020 تا 2024 کے اعداد و شمار کے مطابق امریکا عالمی اسلحہ منڈی میں 43 فیصد کے ساتھ سب سے بڑا سپلائر ہے۔
جبکہ فرانس 9.6 فیصد کے ساتھ دوسرے اور روس 7.8 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر آگیا ہے۔
چین بظاہر 5.9 فیصد شیئر کے ساتھ محدود نظر آتا ہے، لیکن حقیقت میں وہ اپنے دفاعی شعبے کو درآمدات پر انحصار سے آزاد کرچکا ہے۔
پاکستان اور چین کی گہری شراکت داری
گزشتہ 5 برسوں میں چین نے 44 ممالک کو بڑے ہتھیار فراہم کیے، جن میں سب سے زیادہ پاکستان کو۔ جے ایف-17 تھنڈر طیاروں سے لے کر ایئر ڈیفنس سسٹمز، آبدوزوں اور ڈرونز تک، چین کی بیشتر برآمدات پاکستان کو جاتی ہیں۔
2024 میں پاکستان کی 81 فیصد دفاعی درآمدات چین سے ہوئیں، جو اس رشتے کو محض خرید و فروخت سے بڑھا کر مشترکہ پیداوار اور فوجی تعاون کی سطح پر لے آتا ہے۔
دیگر ممالک اور خطے
پاکستان کے علاوہ سربیا اور تھائی لینڈ اہم خریدار ہیں۔ سربیا نے ایف کے-3 ایئر ڈیفنس سسٹم اور ڈرونز خریدے، جبکہ تھائی لینڈ نے ٹینک اور بحری اثاثے حاصل کیے۔
بنگلہ دیش، میانمار، نائیجیریا، الجزائر، ایران، عمان، سعودی عرب، وینزویلا اور بولیویا بھی مختلف سطح پر چینی اسلحہ استعمال کر رہے ہیں۔
اس طرح بیجنگ نے تقریباً ہر براعظم میں اپنی موجودگی درج کرالی ہے۔
افریقہ اور ایشیا میں بڑھتا اثر
افریقہ میں چین 18 فیصد سپلائی کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے، جبکہ مغربی افریقہ میں روس کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔
ایشیا میں چین 14 فیصد کے ساتھ تیسرا بڑا سپلائر ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ کئی ایشیائی ممالک مغرب کی ’چین کے خطرے‘ کی وارننگ کو نظرانداز کرتے ہوئے بیجنگ سے جدید ہتھیار خرید رہے ہیں۔
ڈرونز اور دیگر جدید ہتھیار
چینی ڈرونز، خصوصاً ونگ لونگ اور سی ایچ سیریز، مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ میں سب سے زیادہ مقبول ہیں۔
تاہم چین کی فہرست صرف ڈرونز تک محدود نہیں بلکہ جدید لڑاکا طیاروں، ٹینکوں، آبدوزوں، فریگیٹس اور میزائل سسٹمز تک پھیلی ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:چینی سائنسدانوں پر امریکا میں ’ایگروٹیررازم ہتھیار‘ اسمگل کا الزام، کیا نتائج ہوسکتے ہیں؟
اس لحاظ سے امریکا اور روس کے بعد صرف چین ہی ایسا ملک ہے جو جنگی ہتھیاروں کی مکمل رینج فراہم کر سکتا ہے۔
کم قیمت، تیز تر فراہمی اور سیاسی شرائط سے آزادی
چین کے ہتھیار مغربی متبادلات کے مقابلے میں سستے اور جلد دستیاب ہیں۔ مزید یہ کہ ان کے ساتھ کوئی سخت سیاسی شرائط یا استعمال کی پابندیاں عائد نہیں کی جاتیں۔
ایسے ممالک جو مغربی دباؤ سے بچنا چاہتے ہیں، وہ چین کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ ساتھ ہی بیجنگ ٹیکنالوجی کی منتقلی اور مقامی پیداوار کے معاہدوں پر بھی آمادہ رہتا ہے۔
چیلنجز اور رکاوٹیں
اگرچہ چین کی پیش رفت نمایاں ہے، لیکن کچھ مسائل برقرار ہیں۔ اس کے ہتھیاروں نے بڑے جنگی میدانوں میں خود کو پرکھا نہیں، مغربی ممالک ان کی نیٹو نظام کے ساتھ ہم آہنگی محدود رکھتے ہیں، اور سپلائی چین میں بھی رکاوٹیں دیکھی گئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:پاک بھارت کشیدگی: عالمی سطح پر چینی جنگی ہتھیاروں کی مانگ میں اضافہ
اس کے علاوہ معیار اور اسپیئر پارٹس کے حوالے سے خدشات موجود ہیں۔
مستقبل کا منظرنامہ
چین جلد امریکا کو عالمی اسلحہ برآمدات میں پیچھے نہیں چھوڑ سکے گا، لیکن بیجنگ کی حکمتِ عملی ہی کچھ اور ہے۔
وہ سستے، قابلِ اعتماد اور سیاسی طور پر غیر جانبدار دفاعی حل پیش کر کے ایسے ممالک کو اپنی طرف مائل کر رہا ہے جو خود مختاری کو مغربی شرائط پر فوقیت دیتے ہیں۔
cin
اس طرح چین نہ صرف اسلحہ فراہم کر رہا ہے بلکہ ریاستوں کو اپنے فیصلے خود کرنے کا اختیار بھی دے رہا ہے۔