پنجاب میں حالیہ سیلاب اور اس سے پہلے ایرانی صدر کے دورہ لاہور کے دوران منفرد انداز میں رپورٹنگ کرکے شہرت پانے والی رپورٹر مہرالنسا نے بالآخر اس تاثر پر وضاحت دے دی کہ وہ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو سے منسلک نہیں۔
لاہور سے تعلق رکھنے والی مہرالنسا نے پنجابی انداز میں رپورٹنگ کرکے سوشل میڈیا پر خاصی پذیرائی حاصل کی۔ حالیہ دنوں ان کی سیلاب زدہ علاقوں میں کھڑے ہو کر رپورٹنگ کی ویڈیوز وائرل ہوئیں، جبکہ اس سے قبل ایرانی صدر کی لاہور آمد کے دوران بھی ان کی ویڈیو نے انہیں میڈیا کی توجہ کا مرکز بنایا تھا۔
ان ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ مہرالنسا کے ہاتھ میں ایسا مائیک موجود ہے جس پر ’بی بی سی اردو پنجابی نیوز ٹی وی‘ کا نام اور لوگو درج تھا، جو ظاہری طور پر برطانوی نشریاتی ادارے کے مائیک سے مشابہ دکھائی دیتا ہے۔ اسی وجہ سے عام تاثر یہی ابھرا کہ وہ بی بی سی اردو کے لیے خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔
تاہم رپورٹر کی وائرل ویڈیوز کے بعد بی بی سی اردو نے باضابطہ وضاحت جاری کرتے ہوئے کہاکہ مہرالنسا ان کے ادارے سے کسی حیثیت میں وابستہ نہیں اور نہ ہی ادارے نے انہیں نام یا لوگو استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔
View this post on Instagram
ادارے نے مزید کہا کہ یہ نام اور نشان ایک نجی ڈیجیٹل میڈیا کمپنی بلا اجازت استعمال کررہی ہے۔ صارفین کو بھی مشورہ دیا گیا کہ کسی بھی ویڈیو یا خبر کو مستند ماننے سے پہلے بی بی سی کے آفیشل پلیٹ فارم پر اس کی تصدیق کریں۔
ادارے کے بیان کے بعد مہرالنسا نے اپنا مؤقف دیتے ہوئے کہاکہ ان کے ’بی بی سی‘ کا مطلب برطانوی نشریاتی ادارہ نہیں بلکہ ’بھائی بھائی چینل‘ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی ادارے کی نقل نہیں کر رہیں اور اگر برطانوی نشریاتی ادارہ وضاحت چاہے تو وہ براہِ راست ان سے رابطہ کر سکتا ہے۔
View this post on Instagram
خاتون رپورٹر کی ایرانی صدر کے دورے کے دوران کوریج کے بعد حالیہ سیلاب کے دوران کی بھی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے، جس پر صارفین کی جانب سے دلچسپ تبصرے کیے جارہے ہیں۔