سالہا سال، شبانہ روز جانفشانی سے محکمہ زراعت نے جو فصلیں سینچ کر جوان کی، اب ان بالغ شگوفوں پر نئے پھولوں کی سنہری رُت اتر رہی ہے۔ ملک بھر میں وسیع پیمانے پر بیساکھی کا تیوہار منایا جا رہا ہے اور پے بہ پے برق و نور کے چراغ جل رہے ہیں، مگر بعض عوام کالانعام ہیں کہ خفیف سے کولیٹرل ڈیمیج کا جواز لاکر محکمہ زراعت کی دیرینہ کوششیں گہنانے میں محو ہیں۔
کہیں یہ شور کہ فلاں تاریخی عمارت جل کر راکھ ہوگئی تو کہیں یہ غوغا کہ فلان باغبان کے کپڑے بیچ چوراہے لٹکا کر ٹھٹھہ اڑایا گیا۔ بعضے اس پر شکایت کنندہ کہ سڑکیں اور راستے بند ہوگئے تو بعضوں کو یہ شکوہ کہ ان کارگزاریوں کے طفیل بیرونی سرمایہ کار ملک سے دوڑ جائے گا۔ سوال مگر یہ کہ جو مٹی ذرا سی نم ہوکر بھی یوں زرخیز ہوجائے اور جہاں محکمہ زراعت اس مٹی میں لعل و یمن اگانے کی صلاحیت سے بھی مالامال ہو، وہاں کوڑی دو کوڑی کے بیرونی سرمایہ کار کیا بیچیں گے؟
ایمانی کمزوری کے شکار بعض تجزیہ کار تو یہاں تک کہتے پائے گئے کہ یہ سب مظاہر ریاست کی ناکامی پر دلیل ہیں۔ مگر یہ استدلال لاتے وہ سبھی مبصر بھول بیٹھے کہ جو مملکت الوہیت اور روحانیت کے سرمائے سے مالامال ہو، اسے یہ اعجاز بھی حاصل ہوتا ہے کہ وہ عطائے غیبی کے طفیل ایسے تمام مظاہر سے بطریقِ احسن نمٹ سکتی ہے۔
منصفِ اعلیٰ نے اپنے موکل کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا کردیا کہ ایک قیامت سی بپا ہوگئی۔ کیا منصف بھی گوشت پوست کے انسان نہیں جن کے سینے میں دل، دل میں دھڑکن اور ‘دھڑکن میں کیا ہے؟ تیری پیاس ہے’…
کیا یہ ایک منصف کا طُرّۂ امتیاز نہیں کہ وہ پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھاتے نبھاتے اپنے گوناگوں رومانی و روحانی جذبات کے اظہار پر بھی قدرت رکھتا ہو؟
کوئی اور سلطنت ہوتی تو ایسے منصف کو زندگی کے بیچ ہی مجسمہ بنا کر عدل کے چوراہوں پر نصب کردیا جاتا۔ مگر پاکستان جیسے ملک میں ٹیلنٹ کی ناقدری کوئی نیا قصہ نہیں۔
جذباتیت کا چشمہ ذرا آنکھوں سے نیچے، ناک کی نوک پر ٹِکا کر، عدسوں سے بالا بالا، کنکھیوں سے دُور افق کی سرخی میں جھانک کر دیکھا جائے تو یہ لمحہ ملک کی تاریخ میں ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے کہ محکمہ زراعت کی ڈیڑھ عشرے پر محیط محنت کا پھل جونہی پک کر تیار ہوا، محکمے کے تیار کردہ بالک فوری پھل سمیٹنے کو پہنچے۔ بجا کہ اس ہڑبونگ میں کچھ دھکم پیل، کچھ نعرہ زنی، کچھ آتش بازی اور ہلکی پھلکی سی گولہ باری بھی ہوئی مگر بحیثیت مجموعی فصل تو بہرحال سلامت ہے۔
فصلیں اور نسلیں تیار کرنے کو اک عمر چاہیے ہوتی ہے مگر انہیں اجاڑنے بگاڑنے میں لمحہ بھر کی خطا ہی کافی ہوتی ہے۔ خدا نہ کرے کہ اس ارضِ پاک پہ وہ فصلِ گل اترے جسے کبھی کوئی اندیشۂ زوال ہو۔ محکمہ زراعت کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس نے آج تک کوئی ایسی فصل پیدا ہی نہیں کی جسے اندیشۂ زوال ہو۔ محترمی حمید گل سے مکرمی فیض حمید تک، یہاں تو ہمیشہ فصلیں اندیشۂ وبال سے ہی مالامال آئی ہیں۔
بعض ناہنجار اس سارے بکھیڑے کے بِیچ سقوطِ ڈھاکہ کی مثالیں لانے سے بھی نہیں چُوکتے۔ حالانکہ تاریخ سے نابلد اور زراعت کی مبادیات سے بے خبر یہ لوگ علم ہی نہیں رکھتے کہ جب کوئی کھیتی پے در پے محنت کے بعد بھی ثمر آور ہونے پر آمادہ نہ ہو، تو اس کھیتی کو تیاگ دینا ہی باغبان کے وسیع تر مفاد میں ہوتا ہے۔
جو زمین صرف پٹ سن اور چاول کی پیداوار پر اتراتی تھی، اگر باغبان نے اس کی بے مہری کے سبب ایک آخری گوڈی کرنے کا تہیہ کرلیا اور اس آخری کدال بازی کے بیچ اگر خود باغبان کدال کے کسی ترچھے وار سے زخمی ہوگیا تو قابلِ رحم وہ کھیتی ٹھہری یا پھر باغبان؟ ناہنجار مگر غور نہیں کرتے۔
جہانگیر نے اپنے عدل و انصاف کو مہمیز کرنے کی خاطر جو زنجیر اپنے دربار کے باہر لٹکائی تھی، کوئی ویسی ہی زنجیر اگر ہمارے منصف بھی اپنے ہاں لٹکا لیتے اور کوئی غریب الدیار اس پر اپنے پوتڑے لٹکا دیتا تو یہ عاقبت نااندیش مبصرین اس پر بھی گرہیں باندھتے اور کوسنے دیتے۔
سوال مگر یہ بھی تو بچ رہتا ہے کہ کیا زنجیر کا کام صرف انصاف کی گھنٹی کی ٹن ٹن ہی برداشت کرنا رہ گیا ہے؟ اگر وہ کسی غریب الوطن کے گیلے پوتڑے سکھانے کا اہتمام کرکے راحت بہم پہنچا سکتی ہے تو اس پہ تبرّہ کیونکر؟
جذبات کی رو میں بہہ کر سیاپا کرنے والے مبصرین یہ کیونکر بھول بیٹھتے ہیں کہ اسی برصغیر پاک و ہند پہ مسلمانوں نے سات سو برس تک حکومت کی اور پھر اسی برصغیر میں سے اپنی مرضی کا ایک گوشہ چن کر وہاں خالص نظام کے نفاذ کا عزم کیا۔ کیا بزرگوں نے فرمایا نہیں تھا کہ وہ ایک ایسا خطۂ ارضی تشکیل دینے جا رہے ہیں جو الوہی قوانین کے لیے ایک تجربہ گاہ کی حیثیت رکھتا ہو؟
تہذیبِ انسانی میں لیبارٹری کا کردار کسی چراغِ رخِ زیبا سے کم نہیں ہے اور ہمیں ان تمام اولوالعزموں کی تعظیم اپنے دلوں میں ازسرِنو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے جنہوں نے ہمیں یہ زریں لیبارٹری بناکر دی تاکہ بوقتِ ضرورت ہم ہمہ قسمی تجربات کی جدت اور حدت سے لذت آشنا ہوسکیں۔
اب اگر کسی بہترین لیبارٹری میں بھی کوئی نوآموز طالبِ علم تیزاب کے بیکر میں سوڈیم کی ڈلی ڈال دے اور کوئی ایسا دھماکا سا ہو رہے جو لیبارٹری کے درودیوار ہلا کر رکھ دے تو کیا اس نوآموز کو قابلِ گردن زدنی ٹھہرانا مبنی براںصاف ہوگا؟ یہ نہ صرف اس نوآموز بلکہ لیبارٹری اور اسے سجانے والے محکمے کی بھی اہانت کے مترادف ہوگا۔
علم و فن کا فروغ اور تہذیب کا ارتقا یونہی ممکن ہے کہ تباہ حال لیبارٹری کے کسی دھواں اڑتے ڈیسک کے پیچھے سے ممتحن اپنے ادھ جلے بال سںوار کر کھنکارتے ہوئے اس نوآموز سے دست بستہ ملتمس ہوکہ ‘اب ہم گھڑیوں کو دو دن پیچھے کرتے ہیں اور اب کی بار دھماکا ذرا پیار سے کیجیے گا’