افغانستان کی عبوری حکومت نے قومی شناختی کارڈ پر خواتین کی تصاویر کو لازمی قرار دینے کے بجائے اختیاری بنانے کا اعلان کیا ہے، جس کے بعد خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں نے شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ افغان خواتین کو بنیادی شناخت اور برابری کے حق سے محروم کرتا ہے۔
طالبان کے دارالافتا کی جانب سے جاری فرمان میں کہا گیا ہے کہ صرف بیرونِ ملک مقیم افغان خواتین یا علاج کی غرض سے سفر کرنے والی خواتین کے لیے تصویر لازمی ہوگی، جبکہ افغانستان کے اندر رہنے والی خواتین کے لیے شناختی کارڈ پر تصویر لگانا شریعت کے منافی قرار دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شاعری میں حکومتی فیصلوں پر تنقید اور رومانوی اشعار پر پابندی، افغانستان میں انوکھا قانون منظور
یہ فیصلہ طالبان کے زیرِ انتظام نیشنل اسٹیٹسٹکس اینڈ انفارمیشن اتھارٹی کے اُس منصوبے کو کالعدم قرار دیتا ہے، جس کے تحت خواتین کی تصاویر کو لازمی بنانے کا مقصد شناخت کی تصدیق، جعلسازی کی روک تھام، سفر میں سہولت اور بین الاقوامی معیار پر عمل کرنا بتایا گیا تھا۔ ادارے نے اس فیصلے کے لیے 11 دلائل پیش کیے تھے، تاہم مذہبی علما نے ان میں سے 10 کو غیر اسلامی قرار دے دیا۔
دارالافتا کے مطابق قانونی معاملات کے لیے صرف عورت کا نام، اُس کے والد اور دادا کا نام اور پتہ درج کرنا کافی ہے۔ فرمان میں مزید کہا گیا کہ بین الاقوامی سفر کے لیے پہلے ہی پاسپورٹ اور ویزہ ضروری ہے، اس لیے شناختی کارڈ اس مقصد کے لیے غیرضروری ہیں۔
فرمان میں واضح کیا گیا کہ بغیر کسی شرعی ضرورت کے تصویر لگانا جائز نہیں، خواہ وہ پورے جسم کی ہو یا صرف چہرے کی۔ تاہم خواتین کو یہ اجازت ہے کہ وہ اپنی مرضی سے تصویر شامل کر سکتی ہیں۔
طالبان کے اس فیصلے پر حقوقِ نسواں کی تنظیموں نے سخت ردعمل دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر صارفین نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ خاموش نہ رہے۔ کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ خواتین کے حقوق کی مزید پسپائی ہے، بالکل ویسے ہی جیسے چار سال قبل لڑکیوں پر ثانوی اسکولوں اور جامعات کے دروازے بند کر دیے گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں طالبان حکومت نے کھڑکیوں پر پابندی کیوں لگائی؟
احتجاجی خواتین نے مطالبہ کیا ہے کہ شناختی دستاویزات صنفی امتیاز یا کسی بھی قسم کی پابندی کے بغیر جاری کی جائیں۔