آپ کی مرضی ہے، آپ موجودہ نظام حکومت کو جو چاہیں نام دیں۔ اگر دل چاہے تو اسے جمہوریت کہیں، من کرے تو اس کو ہائی برڈ کہیں، زیادہ دل گرفتہ ہیں تو اس کو ہائی برڈ پلس بھی کہا جا سکتا ہے اور اگر آپ کا تعلق خان صاحب کی جماعت سے ہے تو پھر اس نظام کو آپ جبر کا نظام کہہ سکتے ہیں۔
نظام کے نام سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نظام کے کام سے فرق پڑتا ہے۔ نظام کی اثر پذیری اور قوت اس کی کامیابی اور نا کامیابی کی مظہر ہوتی ہے۔ آپ جس مرضی نام سے پکاریں یہ نظام اب جڑ پکڑ چکا ہے۔ اب اس نظام کی مخالفت کرنے والے دھول ہوتے جا رہے ہیں اور اس کی سماج، سیاست اور دنیا کے امور پر گرفت مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔
غور کریں تو اس نظام کی اپوزیشن ہر سطح پر دم توڑ چکی ہے۔ ا س نظام کے سب سے بڑے مخالف عمران خان جیل میں اور حالات بتا رہے ہیں کہ ان کا طویل مدت تک قیام وہیں رہے گا۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پی ٹی آئی شدید توڑ پھوڑ کا شکار ہے۔ جماعت کے تمام ہی ارکان میڈیا پر اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوتے چلے جا رہے ہیں اور درون خانہ کسی ایک اہم ملاقات یا ٹیلی فون کال کے منتظر رہتے ہیں۔
خیبر پختونخوا حکومت میں بھی احتجاج کی سکت نہیں رہی۔ چند ایک احتجاج کیے ضرور مگر نتیجہ نظام کی جانب سے مزید سختی کی صورت میں نکلا۔ علی امین گنڈا پور بھی اب اپنے ہی آدمی تصور کیے جاتے ہیں۔ میڈیا پر کچھ کہتے ہیں میٹنگوں میں پاؤں دباتے ہیں۔ اب وہ نظام میں رخنہ نہیں بلکہ اس نظام کے معاون خاص ہیں۔ عمران خان نے علی امین گنڈا پور کے کان کھینچنے کے لیے جنید اکبر کو صدر کے پی کے بنایا مگر ان کا جذبہ شجاعت صوابی کے ایک ہی جلسے میں ڈھیر ہو گیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ کارکن بددل ہیں، قیادت کنفیوز ہے اور پارٹی اندرونی انتشار کا شکار ہے۔ حالات بتاتے ہیں کہ اپوزیشن کے تن مردہ میں کم از کم اگلے سات سال تک جان پڑنے کے امکان نہیں۔
باقی بڑی سیاسی جماعتیں اس نظام کی سٹیک ہولڈر ہیں۔ وزرا کی سطح پر چاہے کتنی ہی جوتم پیزار کیوں نہ ہو جائے یہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی والے جانتے ہیں کہ اب اس نظام کی بقا میں ہی ان کی بقا ہے۔ اس پارٹی کے چلنے کی صورت میں ہی ان کی پارٹی چلے گی۔ باقی سیاسی جماعتیں چھوٹی ہیں وہ صوبائی سطح پر سیاست کر سکتی ہیں مگر ملکی منظر نامے پر تبدیلی کا دور تک بلکہ بہت دور تک کوئی امکان نہیں۔
ہمارے ہاں ہر نظام کا ایک خطرہ بیرون ملک عناصر کی جانب سے ہوتا ہے۔ بھارت ازلی دشمن ہے اس کی جانب سے ہر لمحے کسی در اندازی کا خطرہ رہتا ہے لیکن ’بنیان مرصوص‘ کے بعد بھارت کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔ اب برصغیر میں اگر کوئی فاتح ملک ہے تو پاکستان ہے۔ بھارت مسلسل عالمِ شکست میں ہے اور شکست خوردہ قوموں کی دنیا میں کوئی عزت نہیں ہوتی۔ معرکہ حق نے خطے میں طاقت کا توازن اس طرح تبدیل کیا کہ اب بھارت کو مدت تک پاکستان کی طرف بُری نظر سے دیکھنے کی جرات نہیں ہو گی۔
اور ہاں اپنے ہاں نظام کو امریکا سے ہمیشہ خطرہ ہوتا ہے۔ اس کے اپنے مقاصد اور اپنے پیادے ہوتے ہیں لیکن اس دفعہ نظام کی بنیادیں امریکا بھی نہیں ہلا رہا بلکہ وہ تو ا س نظام کو آئے روز جلا بخش رہا ہے۔ معرکہ حق میں پاکستان کی بے مثال فتح کے بعد امریکا کی دلچسپی بھارت میں کم ہو گئی ہے اور ساری نظرِ کرم پاکستان کی جانب ہے۔ فیلڈ مارشل کا ڈونلڈ ٹرمپ کےساتھ دو گھنٹے کا برنچ اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ اس نظام کو امریکا کی مکمل تائید حاصل ہے۔
الیکٹرانک میڈیا نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ کوئی بریکنگ نیوز ’تائید خاص‘ کے بغیر نہیں چلتی۔ کوئی ٹِکر ایسا نہیں ہوتا جو برہمی کا سبب بنے۔ کوئی اینکر فرطِ جذبات میں ریڈ لائن پار نہیں کرتا۔اب رہا مسئلہ چند یو ٹیوبرز یا باہر بیٹھے صحافیوں کا، تو یہ معاملہ بھی اب قریباً نمٹ چکا ہے۔ اندرون خانہ ’پیکا‘ قانون نافذ ہو چکا ہے۔ سوشل میڈیا پر کنٹرول حاصل ہو چکا ہے۔ بیرون ملک یو ٹیوبرز کو بیرونی ایجنٹ قرار دیا جا چکا ہے۔ امریکا سے لے کر عوام تک سب راہ راست پر آ چکے ہیں لیکن مسئلہ نظام کی طاقت کا نہیں بلکہ نظام کے ذریعے حاصل کیے گئے نتائج کا ہے۔
اس ماہ سیلاب ایک عذاب بن کر آیا۔ آسمان سے بارش نہیں قیامت برسی ۔ بھارت نے اپنے دریاؤں کا زائد پانی چھوڑ دیا اور یہاں لاکھوں ایکڑ رقبہ زیر آب آ گیا۔ ہر صوبے میں نقصان ہوا۔ ہر علاقہ اس سے متاثر ہوا۔
یہ بپھرا پانی کل کو اتر جائے گا، لٹے پٹے علاقوں میں صرف سیلاب کا کیچڑ اور ہماری احمقانہ منصوبہ بندی کا ماتم رہ جائے گا۔ چند دن بعد سب بھول جائیں گے اور اگلے سال کے سیلابی ریلے میں انسانوں کے ڈوبنے تک ہم اس سانحے کو بھولے رہیں گے۔
ابتدا میں نظام کی بحث اس لیے نہیں کی کہ مجھے اس نظام سے کسی اختلاف کی کوئی جرات ہے۔ تفصیل کا مدعا صرف یہ تھا کہ یہ نظام بہت طاقتور ہو چکا ہے۔ ہر فیصلہ کرنے کی قوت رکھتا ہے۔ اس کی کوئی اپوزیشن نہیں تو اس کی غیر معمولی قوت سے فائدہ اٹھا کر کچھ ایسے فیصلے ضرور کرنے چاہئیں جو دہائیوں سے مصلحتوں کا شکار ہیں۔
ہمارے دو بڑے ڈیم ایوب خان کے دور میں بنے جب کوئی اپوزیشن نہیں تھی۔ اپوزیشن اب بھی کوئی نہیں ہے تو ہمت کیجیے اور ان پراجیکٹس کا سنگ بنیاد رکھ دیں جو سراسر پاکستان کے مفاد میں ہیں، جو سیلاب کے اس پانی کو روکنے کا انتظام کر سکتے ہیں۔
ہائی برڈ پلس نظام کے رکھوالوں سے اتنی استدعا ہے کہ ڈیم بنائیں، نہریں بنائیں۔ پانی کے چھوٹے ذخائر بنائیں۔ جو بھی کریں بس آج اور ابھی کریں۔ قوموں کی زندگی میں اس طرح کی طاقتور حکومتیں کم ہی آتی ہیں۔ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں۔ جو فیصلے مدت سے طاق میں دھرے ہیں ان پر عمل فرمائیں ورنہ یہ سیلاب اگلے برس بھی آئے گا۔ یہ تباہی اگلے برس بھی ہو گی۔ اگلے برس بھی یہ قیمتی پانی ضائع جائے گا اور اگلے برس بھی ہمارے پاس گئے وقت کی لکیر پیٹنے کی سوا کچھ نہیں ہوگا۔
اہل اقتدار کو سوچنا چاہیے کہ وہ تارِیخ میں خود کو ہائی برڈ نظام کے متوالے کہلانا چاہیں گے یا پھر ’پاکستان کے محسن‘ کے نام سے پکارا جانا چاہیں گے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔