وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ صوبے کو سپرفلڈ کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جس سے بچاؤ کے لیے ممکنہ اقدامات کررہے ہیں، پہلی ترجیع انسانی جانیں بچانا اور لوگوں کے مال مویشیوں کو محفوظ رکھنا ہے،جاب میں سیلاب دریائے چناب، راوی اور ستلج میں آیا ہے، لیکن وہ پانی کالا باغ تک نہیں لے جایا جاسکتا، یہ کہنا فضول ہے کہ اگر کالا باغ ڈیم ہوتا تو نقصان نہ ہوتا۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ صوبے کو سپر فلڈ کا سامنا ہوسکتا ہے، جس کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جا رہے ہیں تاکہ انسانی جانوں اور مال مویشیوں کو محفوظ بنایا جاسکے اور بیراجوں پر کوئی نقصان نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ این ڈی ایم اے کے مطابق 8 سے 11 لاکھ کیوسک پانی 5 یا 6 اگست کو گڈو بیراج پر پہنچے گا اور اتنی مقدار میں پانی کا مطلب سپر فلڈ ہے، اسی حوالے سے تیاری کی جا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ: سپر فلڈ کی تیاری، ضلعی انتظامیہ اور مسلح افواج متحرک، مراد علی شاہ کی بریفنگ
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سب سے پہلے ہدف انسانی جانوں کو بچانا ہے، اس کے ساتھ مال مویشیوں کو محفوظ رکھنا ہے اور بیراجوں کے بندوں کو مضبوط بنانا ہے تاکہ پانی باہر نہ نکلے۔ ان کا کہنا تھا کہ 2010 کے سیلاب میں گڈو بیراج سے 11 لاکھ 48 ہزار کیوسک کا ریلا گزرا تھا اور اس وقت کے بعد بندوں پر کافی کام ہوا ہے، آج ہمارے بند اس لیول سے 6 فٹ اوپر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 5 اگست کو 5 لاکھ 50 ہزار کیوسک پانی گزارا جا چکا ہے اور اب 9 لاکھ پلس کی تیاری مکمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب میں سیلاب دریائے چناب، راوی اور ستلج میں آیا ہے، لیکن وہ پانی کالا باغ تک نہیں لے جایا جاسکتا، کیونکہ وہ الگ مقام ہے۔ قدرتی آفت کے موقع پر یہ کہنا فضول ہے کہ اگر کالا باغ ڈیم ہوتا تو نقصان نہ ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ محکمہ آبپاشی کے حکام پراعتماد ہیں کہ اپ اسٹریم سے آنے والا پانی بیراجوں سے گزار لیا جائے گا، البتہ دریا کے کنارے بندوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے جس سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت سیلاب زدگان کی مدد کے لیے کام کررہی ہے، مراد علی شاہ
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سب سے بڑا چیلنج لوگوں اور مویشیوں کو بچانا ہے اور اسی مقصد کے لیے متاثرہ علاقوں سے لوگوں کو نکالنے کی حکمت عملی پر عمل شروع کردیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ صوبائی حکومت کی درخواست پر پاک فوج نے اپنے دو یونٹس تعینات کیے ہیں جبکہ پاکستان نیوی کی ٹیمیں بھی پہنچ چکی ہیں۔ انہوں نے بعض میڈیا رپورٹس کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ گھوٹکی میں ان کے دورے کے بعد یہ خبر چلائی گئی کہ کیمپ ہٹا دیا گیا، حالانکہ وہ کیمپ صرف بریفنگ دینے کے لیے قائم کیا گیا تھا اور وہاں اب بھی ڈاکٹر مریضوں کا معائنہ کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ این ڈی ایم اے کی جانب سے 11 لاکھ کیوسک پانی کی آمد کی اطلاع کے بعد تیاری مزید تیز کر دی گئی ہے۔ 3 اور 4 ستمبر کو پنجند پر پانی کی آمد کے بعد یہ طے ہوگا کہ گڈو بیراج پر کتنا دباؤ آئے گا اور دو دن میں یہ پانی سندھ پہنچے گا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ 6 ستمبر یوم دفاع اور 12 ربیع الاول کے موقع پر صورت حال پر کڑی نظر رکھی جائے گی، کیونکہ ماضی میں بھی سندھ کے بیراج بڑے ریلے سے کامیابی سے نمٹے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سیلاب کے پنجاب سے گزر کر سندھ میں داخل ہونے پر کیا ہوگا؟
انہوں نے کہا کہ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی، محکمہ صحت اور دیگر ادارے فعال کر دیے گئے ہیں تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے بروقت نمٹا جاسکے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی ایک حقیقت ہے اور اس کے باعث قدرتی آفات میں اضافہ ہورہا ہے، اس لیے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے مربوط پالیسی بنانے کی ضرورت ہے، تاہم فی الحال ہماری توجہ اگلے 15 دن خیر و عافیت سے گزارنے پر ہے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ ہم پنجاب کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور انہیں جو بھی امداد درکار ہوگی سندھ حکومت فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔