افغانستان ایک بار پھر ہلا دینے والے زلزلے کی لپیٹ میں آ گیا ہے، اتوار کی شب مشرقی صوبوں کنڑ اور ننگرہار میں 6.0 شدت کا زلزلہ آیا جس کے نتیجے میں اب تک 800 افراد جاں بحق اور 2 ہزار 500 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلہ رات گئے مقامی وقت کے مطابق تقریباً 12 بجے آیا، جس کا مرکز جلال آباد شہر کے قریب، پاک افغان سرحد کے نزدیک تھا اور اس کی گہرائی صرف 8 کلومیٹر تھی۔
یہ بھی پڑھیں: کنڑ سمیت مشرقی افغانستان میں ہولناک زلزلہ، ہلاکتیں 500 سے تجاوز کرگئیں
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پیر کی دوپہر پریس کانفرنس میں بتایا کہ ہلاکتوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور خدشہ ہے کہ اموات 4 ہزار تک پہنچ سکتی ہیں، جبکہ اقوام متحدہ نے اندازہ لگایا ہے کہ جاں بحق افراد کی تعداد 1 ہزار 500 کے قریب ہو سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق افغانستان کی جغرافیائی پوزیشن اسے زلزلوں کے لیے نہایت حساس بنا دیتی ہے۔ یہ ملک بھارتی اور یوریشیائی ٹیکٹونک پلیٹس کے سنگم پر واقع ہے، جہاں مسلسل تصادم جاری ہے۔ خاص طور پر ہندوکش کا پہاڑی سلسلہ ان جھٹکوں کا زیادہ شکار ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں زلزلہ، پاکستان نے طبی امداد روانہ کر دی
یہ قدرتی وجہ تو اپنی جگہ لیکن ناقص انفراسٹرکچر ان زلزلوں کو مہلک اور تباہ کن بنا دیتا ہے۔ دیہی علاقوں میں زیادہ تر مکانات کچی مٹی یا کمزور تعمیراتی ڈھانچوں پر مشتمل ہیں، جو معمولی جھٹکوں میں بھی منہدم ہو جاتے ہیں۔
حالیہ دہائی کے چند مہلک ترین زلزلے
گزشتہ دہائی میں افغانستان میں کئی بڑے زلزلے آئے جن میں اکتوبر 2015 میں 7.5 شدت کا زلزلہ 117 افراد کی جان لے گیا، جنوری 2022 میں 5.3 شدت کا زلزلہ 26 افراد کی ہلاکت کا سبب بنا، جون 2022 میں 6.1 شدت کے زلزلے نے 1036 افراد کی جان لی۔
ستمبر 2022 میں 5.1 اور 4.6 شدت کے زلزلوں میں 8 افراد ہلاک ہوئے، مارچ 2023 میں 6.5 شدت کے زلزلے نے 13 افراد کی جان لی، اکتوبر 2024 میں 6.3 شدت کے زلزلے میں کم از کم 2445 افراد ہلاک ہوئے جبکہ تازہ ترین 31 اگست 2025 کے زلزلے میں اب تک 800 اموات اور 2500 سے زائد زخمی رپورٹ ہو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد، راولپنڈی سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے
ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں آئندہ بھی شدید زلزلوں کے امکانات برقرار رہیں گے، جب تک مضبوط انفراسٹرکچر، فوری ایمرجنسی ریسکیو سسٹم اور زلزلہ مزاحم تعمیرات پر توجہ نہ دی جائے۔