وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ کالا باغ ڈیم ریاست کے مفاد میں ناگزیر ہے اور اگر کسی کو اس حوالے سے تحفظات ہیں تو بات چیت کے ذریعے انہیں دور کیا جانا چاہیے۔
اسلام آباد کے خیبرپختونخوا ہاؤس میں پارٹی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہاکہ ڈیم نہ بننے کی وجہ سے بارشوں اور سیلاب کے باعث ملک کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ بعض اوقات ہم کچھ ڈیمز کے نام لینے سے بھی ہچکچاتے ہیں حالانکہ کالاباغ ڈیم قومی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کلاؤڈ برسٹ: بونیر کے بعد صوابی میں بھی بڑے پیمانے پر تباہی، متعدد جاں بحق، گھر ڈوب گئے
انہوں نے کہاکہ کالا باغ ڈیم جیسا منصوبہ پورے پاکستان، آنے والی نسلوں اور اپنے بچوں کے لیے بنایا جانا چاہیے، جس کے لیے سب کو مطمئن کرنا ضروری ہے۔
بریکنگ
وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے کالا باغ ڈیم کی حمایت کر دی pic.twitter.com/g4okUppvDx— PTV News (@PTVNewsOfficial) September 1, 2025
انہوں نے کہا کہ صوبائیت کے نام پر پورے ملک کو نقصان پہنچایا نہیں جا سکتا اور نہ ہی پاکستان کے فائدے کو کسی کے ذاتی یا صوبائی مفادات کی وجہ سے پیچھے دھکیلنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ سب کے تحفظات کو دور کرتے ہوئے ایسے بڑے منصوبے کو ملک اور مستقبل کی نسلوں کے فائدے کے لیے عملی شکل دی جانی چاہیے۔
’ہم ڈیم کی تعمیر کے لیے اپنا حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہیں‘
علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ ’ہم ڈیم کی تعمیر کے لیے اپنا حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہیں، دیگر صوبوں کو بھی اس سلسلے میں کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر ممکن ہوسکے۔‘
انہوں نے کہا کہ ڈیم بنانے میں تاخیر کے باعث نقصانات بڑھ گئے تاہم صوبائی حکومت اب اپنے طور پر چھوٹے اور درمیانے درجے کے ڈیم تعمیر کر رہی ہے۔ گزشتہ سال صوبے میں 6 ڈیم مکمل کیے گئے جبکہ گومل زام ڈیم کی بدولت نقصانات میں کمی آئی۔
وزیر اعلیٰ نے مزید کہا کہ پشاور کے تحفظ کے لیے جبہ ڈیم تعمیر کیا جارہا ہے جبکہ بڈھنی کے مقام پر سیلاب سے بچاؤ کے لیے حفاظتی دیوار بنائی جارہی ہے۔
کلاؤڈ برسٹ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے علی امین گنڈاپور نے کہا کہ بونیر میں حالیہ کلاؤڈ برسٹ کا درختوں کے کٹاؤ سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ یہ موسمی حدت کے باعث قدرتی طور پر وقوع پذیر ہوتا ہے اور دنیا کے کسی بھی حصے میں ہوسکتا ہے۔ پتھروں کو سیلابی ریلوں سے روکنے کے لیے سوئٹزرلینڈ کی طرز پر نیٹ لگائے جائیں گے۔
’سیلاب میں بونیر، شانگلہ، سوات، بٹ گرام، باجوڑ اور صوابی زیادہ متاثر ہوئے‘
اس سے قبل گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حالیہ سیلاب میں بونیر، شانگلہ، سوات، بٹ گرام، باجوڑ اور صوابی سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ مختلف حادثات میں 411 افراد جاں بحق اور 132 زخمی ہوئے جبکہ 12 افراد تاحال لاپتا ہیں۔
وزیر اعلیٰ کے مطابق مجموعی طور پر 12 ہزار 500 سے زیادہ خاندان متاثر ہوئے، 571 گھر مکمل طور پر اور 1983 گھر جزوی طور پر تباہ ہوئے۔ 1996 دکانوں، 413 سڑکوں، 72 پلوں، 589 سرکاری عمارتوں اور بجلی کے 99 فیڈرز کو نقصان پہنچا۔
انہوں نے بتایا کہ ریسکیو اور ریلیف آپریشن میں صوبائی اداروں کے ساتھ پاک فوج کے 3 یونٹس اور 5 ہیلی کاپٹرز بھی شامل ہوئے۔ متاثرہ علاقوں میں 2500 ریسکیو اہلکار اور 1000 رضا کار تعینات کئے گئے جبکہ فوری بحالی کیلئے سی اینڈ ڈبلیو کی 200 ہیوی مشینری بھی لگائی گئی۔
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ اب تک ڈھائی لاکھ افراد کو تیار کھانا فراہم کیا گیا، 140 ٹرکوں پر مشتمل امدادی سامان متاثرہ اضلاع میں پہنچایا گیا، 15 واٹر فلٹریشن پلانٹس نصب کئے گئے جبکہ چار موبائل اسپتال بھی قائم کئے گئے۔
’جاں بحق افراد کے ورثا کو فی کس 20 لاکھ روپے دیے جارہے ہیں‘
وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ معاوضے کی شرح دوگنی کردی گئی ہے۔ جاں بحق افراد کے ورثا کو فی کس 20 لاکھ روپے، زخمیوں کو 5 لاکھ روپے، مکمل تباہ شدہ گھروں کو 10 لاکھ، جزوی طور پر متاثرہ گھروں کو تین لاکھ اور پہلی بار دکانوں کے نقصان پر پانچ لاکھ روپے فی کس معاوضہ دیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ فوڈ اسٹیمپ کی مد میں 15 ہزار روپے فی خاندان دیے جارہے ہیں۔
وزیراعلیٰ کے مطابق اب تک 411 اموات میں سے 352 کے لواحقین کو 704 ملین روپے، 60 زخمیوں کو 30 ملین روپے، 367 متاثرہ گھروں کے مالکان کو 367 ملین روپے اور 253 دکانوں کے مالکان کو 126 ملین روپے ادا کئے جا چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخوا میں بارشوں اور سیلاب سے 314 ہلاکتیں، بونیر سب سے زیادہ متاثر، پی ڈی ایم اے رپورٹ
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ تمام متاثرین کو اگلے ایک 2 روز میں معاوضوں کی مکمل ادائیگی کر دی جائے گی۔ تباہ شدہ تمام 99 بجلی فیڈرز بحال کر دیے گئے ہیں، 406 متاثرہ سڑکوں میں سے 376 کھل چکی ہیں جبکہ 77 میں سے 65 پل بحال کر دیے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ریلیف اور بحالی کے کاموں کے لیے 4 ارب روپے جاری کیے جا چکے ہیں جبکہ مزید 5 ارب روپے جلد جاری کئے جائیں گے۔