ایک امریکی ویٹرنری ماہر نے خبردار کیا ہے کہ جھیلوں اور تالابوں میں پائے جانے والے زہریلی نیلی و سبز الگی پالتو جانوروں کے لیے مہلک ثابت ہو سکتے ہیں اور اگر بروقت احتیاط نہ کی گئی تو ان کا اثر چند منٹوں میں جان لیوا ہو سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں بدترین سیلابی صورت حال برقرار، مزید بارشوں کا الرٹ جاری کردیا گیا
ورجینیا ٹیک یونیورسٹی کی ویٹرنری ماہر ڈاکٹر الیگزینڈرا ریڈی نے کہا ہے کہ یہ زہریلا سائنوبیکٹیریا، جسے عام طور پر نیلی سبز الگی (بیکٹریائی کائی) کہا جاتا ہے چند منٹوں میں جانور کی جگر اور اعصابی نظام کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔
یہ الگی کہاں پائی جاتی ہے؟
یہ الگی زیادہ تر ٹھہرے ہوئے پانی، جھیلوں، تالابوں یا کم بہاؤ والے علاقوں میں پائی جاتی ہے اور ظاہری طور پر بے ضرر دکھائی دیتی ہے۔ تاہم اس میں موجود زہریلے مادے نہ صرف جانوروں بلکہ انسانوں، خصوصاً بچوں کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ علامات میں قے، اسہال، جھٹکے، سانس لینے میں دشواری اور جلدی خارش شامل ہیں جب کہ شدید صورت میں جگر اور دماغی نظام متاثر ہو سکتا ہے۔
نیلی سبز الگی انسانوں کے لیے بھی سنگین خطرات کا باعث بن سکتی ہے خصوصاً جب یہ پانی کی سطح پر تیزی سے پھیلتی ہے اور لوگ اس آلودہ پانی میں نہاتے یا کھیلتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر کوئی انسان، خصوصاً بچہ، اس پانی سے رابطے میں آئے یا غلطی سے اسے نگل لے تو جلد پر خارش، سوزش، آنکھوں میں جلن اور نظام ہاضمہ کی خرابی جیسے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ بعض صورتوں میں سانس لینے میں دشواری یا متلی، قے اور اسہال کی شکایات بھی سامنے آتی ہیں جب کہ شدید زہریلے اثرات جگر اور اعصابی نظام کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔
مزید پڑھیے: بارشوں کے بعد راول ڈیم میں پانی کی سطح میں اضافہ، اسپل ویز کھول دیے گئے
بچوں کے لیے یہ الگی خاص طور پر خطرناک سمجھی جاتی ہے کیونکہ ان کا مدافعتی نظام نسبتاً کمزور ہوتا ہے اور وہ کھیل کود کے دوران پانی نگلنے کے امکانات رکھتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ اگر کسی جھیل یا تالاب کے پانی میں سبز یا نیلی تہہ نظر آئے تو بچوں کو اس سے دور رکھیں۔ اگر کسی بچے میں مشتبہ پانی کے استعمال کے بعد علامات ظاہر ہوں تو فوری طور پر طبی امداد حاصل کرنا ضروری ہے۔
متاثرہ جانوروں میں علامات
اسی طرح اگر آپ کے پالتو جانور نے ایسی جگہ سے پانی پی لیا یا تیرنے کی کوشش کی تو اس مختلف علامات ظاہر ہو سکتی ہیں جن میں تھوک بہنا، دورے پڑنا، کپکپی یا جھٹکے، سانس لینے میں دشواری اور اسہال شامل ہیں۔ کچھ صورتوں میں جانور کی اچانک موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
احتیاطی تدابیر
پالتو جانوروں کے مالکان کے لیے ضروری ہے کہ وہ جھیل یا پارک پہنچنے کے بعد پانی کا جائزہ لیں یہ خصوصاً یہ غور کرین کہ کہیں سطح پر سبز یا نیلے رنگ کی تہہ تو موجود نہیں۔ اگر الگی ہونے کا ذرا سا بھی شک ہو تو اپنے جانور کو پانی سے دور رکھیں۔
ماہرین کی تجویز
ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ موسم گرما کے دوران جب پانی زیادہ دیر تک ساکت رہتا ہے اور درجہ حرارت بلند ہوتا ہے تو اس قسم کے الگی کے پھوٹنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے جانوروں کی حفاظت کے لیے فوری ردعمل اور احتیاط نہایت ضروری ہے۔
اگر آپ کے پالتو جانور کو ان علامات میں سے کوئی بھی علامت نظر آئے تو فوری طور پر قریبی ویٹرنری کلینک سے رجوع کریں۔
پاکستان میں نیلی سبز کائی
پاکستان میں بھی نیلی سبز الگی یعنی سائنوبیکٹیریا مختلف آبی ذخائر میں پائی جاتی ہے اور یہ خصوصاً ان علاقوں میں ہوتی ہے جہاں پانی ٹھہرا ہوا ہو اور نکاسی آب کا نظام ناقص ہو۔
مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا میں مزید مون سون بارشوں کی پیشگوئی، پی ڈی ایم اے نے ہائی الرٹ جاری کر دیا
ماحولیاتی ماہرین کے مطابق منچھر جھیل، راول جھیل، ہالیجی جھیل اور دیگر چھوٹے تالابوں اور ڈیمز میں خصوصاً گرمیوں اور مون سون کے موسم میں ایسے حالات موجود ہیں جو الگی کی افزائش کے لیے سازگار ہوتے ہیں ۔
مقامی سطح پر ان الگی کے باعث ماہی گیری کو نقصان، پانی کے رنگ و بو میں تبدیلی اور حیاتیاتی نظام میں بگاڑ جیسے مسائل بھی رپورٹ ہو چکے ہیں۔
اگرچہ پاکستان میں پالتو جانوروں پر نیلی سبز الگی کے اثرات کے حوالے سے اعداد و شمار کم دستیاب ہیں تاہم ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ مویشی یا پالتو جانور ایسے آلودہ پانی سے رابطے میں آئیں تو ان کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں جیسا کہ قے، اسہال، جھٹکے یا اچانک موت۔ اور یہ بچوں کے لیے بھی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ڈیڑھ پونڈ کائی اور گونگھوں سے ڈھکے کچھوئے کو کیسے بچایا گیا؟
اس لیے دیہی اور شہری دونوں علاقوں میں پانی کے ذخائر کے استعمال میں احتیاط، مقامی ماحولیاتی رپورٹس کا جائزہ اور بچوں و پالتو جانوروں کو جھیلوں یا تالابوں سے دور رکھنا ضروری ہے۔