بوسٹر ڈوز کی محتاجی سے آزاد ویکسین کی تیاری کا آغاز

جمعہ 12 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آسٹریلیا میں سائنسدانوں نے دیرپا اثررکھنے والی ویکسین کی تیاری پر کام شروع کر دیا ہے تاکہ اسے لگائے جانے کے بعد کسی بوسٹر ڈوز کی ضرورت باقی نہ رہے۔

ایک نئی تحقیق میں یہ بات واضح ہوئی ہے کہ بعض ویکسینز زیادہ دیر تک مؤثر کیوں رہتی ہیں جب کہ بعض دیرپا اثرات نہیں رکھتیں جس کی وجہ سے ان کے ساتھ بوسٹر ویکسین لگانی پڑتی ہے۔

 محققین کا کہنا ہے کہ بچپن ہی سے جان لیوا بیماریوں سے بچاؤ کے لیے بچوں کو مختلف ویکسینز کے ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔ جب بھی کسی کو ایسی ویکسین کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے تو مہلک بیماریوں سے بچاؤ کے لیے یہ ویکسین جسم میں اینٹی باڈیز بناتی ہے جس سے مدافعتی نظام زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ لیبارٹیریز میں تیار کی جانے والی ویکسینز ایک جیسی ہوتی ہیں اور نہ ہی ان کے اثرات یکساں ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض ویکسینز زندگی بھر کے لیے بیماریوں سے لڑنے کے لیے مدافعت کے عمل کو مضبوط بنا دیتی ہیں جب کہ بعض عارضی یا کچھ ماہ کے لیے ہوتی ہیں۔

ملبورن میں موناش یونیورسٹی کے سینٹرل کلینکل اسکول کے ماہرین نے کہا ہے کہ انہوں نے اس بات پر تحقیق شروع کر دی ہے کہ جسم میں ایسے خلیے کیسے بنتے ہیں جو بیماریوں کے خلاف لڑنے کے لیے دیرپا اینٹی باڈیز بناتے ہیں۔

طبی ماہرین کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ نتائج طب کی دنیا میں انقلاب برپا کر سکتے ہیں کہ کیسے تمام ویکسینز کے اثرات کو دیرپا بنایا جا سکتا ہے۔

’جرنل امیونیٹی‘ میں اس ماہ شائع ہونے والی اس نئی تحقیق میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ کس طرح جسم میں قوت مدافعت کو طویل مدت تک برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ ماہرین امید کر رہے ہیں کہ وہ اس تحقیق کے ذریعے ہرطرح کی ویکسین کے اثرات کو دیرپا بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

میلبورن آسٹریلیا کے امیونولوجی الفریڈ ہسپتال کے ریسرچر ڈاکٹر مارکس رابنسن جو اس تحقیق کے سربراہ ہیں نے بتایا کہ: ‘مجھے امید ہے کہ اس تحقیق سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ ہم دوبارہ انفیکشن سے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں اور یہ ویکسین ہمیں کتنی دیر تک تحفظ فراہم کر سکے گی۔ ہم اس میں کامیاب ہو گئے تو ہمیں بوسٹر ویکسین کی ضرورت نہیں پڑے گی‘۔

ویکسین کیسے کام کرتی ہے؟

مہلک یا جان لیوا بیماریوں سے بچاؤ میں مدد کے لیے بچپن سے ہی لوگوں کو ویکسین دی جاتی ہیں۔ جب کسی کو ویکسین کا ٹیکہ لگاتے ہیں تو جسم خود کو بیماریوں سے بچانے کے لیے اینٹی باڈیز بناتا ہے۔

وینڈربلٹ ویکسین ریسرچ پروگرام کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر بڈی کریچ کہتے ہیں کہ: ‘ویکسینز جراثیم کے انتہائی ضروری پہلوؤں پر کام کر کے ہمارے مدافعتی نظام کوطاقت دیتی ہیں‘۔ کریچ نے حالیہ تحقیق کی تعریف کی۔

واضح رہے کہ خسرہ، پولیو اور چیچک بہت مضبوط جراثیم ہیں۔ وقت کے ساتھ ان کو ختم نہیں کیا جا سکتا اس لیے ایک بار جب انفیکشن ہو جائے تو پھر انہیں دوبارہ مضبوط ویکسین سے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی ویکسین سانس کے انفیکشن، ‘انفلوئنزا، آر وی ایس یا کرونا وائرس پر زیادہ مؤثر نہیں ہوتی۔ ان بیماریوں یا وائرس کو ختم کرنے کے لیے ہمیں ہر سال بوسٹر یا نئی ویکسین کی ضرورت ہوتی ہے۔

ویکسین کا استعمال

آج کل موسمی فلو اور تشنج سمیت بہت سی بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت کو برقرار رکھنے کے لیے بوسٹر ویکسین ضروری ہوتی ہے۔ لیکن محققین اب ایسی ویکسین بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے بعد ہمیں بوسٹر ڈوز کی ضرورت نہ ہو۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp