سابق وزیراعظم عمران خان کو جمعہ کے روز پولیس اور رینجرز کی سخت سیکیورٹی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے روبرو پیش کیا گیا۔ اس موقع پر اسلام ااباد ہائی کورٹ کے اطراف سیکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کے گئے تھے اور اس طرف جانے والے تمام راستوں پر کنٹینرز اور خاردار تاریں لگا کر رکاوٹیں لگادی گئی تھیں۔
عمران خان کو ساڑھے 11 بجے کے بعد عدالت لایا گیا۔ اس بار عمران خان کی گاڑی کو عدالت کے احاطے کے اندر لانے کی اجازت دی گئی کیوں کہ وہ ‘سپریم کورٹ کے مہمان’ تھے اور رینجرز کی سیکیورٹی میں ہائی کورٹ آرہے تھے۔
رینجرز انہیں اسی کمرے میں سیکیورٹی حصار میں لے کر گئی جہاں سے وہ 9 مئی کو گرفتار کیے گئے تھے اور جہاں ان کا ایک بار پھر بائیو میٹرک ہوا تھا۔
ہلکی نیلی شلوار قمیض اور واسکوٹ میں ملبوس عمران خان رینجرز کے حصار میں چلتے ہوئے آئے تو ہائی کورٹ کی بلڈنگ کی پہلی منزل اور چھت پر بھی وکلا اور ہائی کورٹ کا عملہ موجود تھا جو اپنے اپنے موبائل سے عمران خان کی رہائی کے بعد اور بغیر بلٹ پروف پلیٹوں اور سر پر سیکیورٹی شیلڈ رکھے عدالت کی طرف جارہے تھے۔
عمران خان نے کیمروں کی جانب ہاتھ ہلائے وکٹری کا نشان بنایا اور بائیو میٹرک کمرے میں داخل ہوگئے۔ سپریم کورٹ کے حکمنامے کے بعد عمران خان کی گرفتاری تو ریورس ہوگئی تھی لیکن بائیو میٹرک روم کے باہر ٹوٹے گملے اور چکناچور ہوئے شیشے 3 روز بعد بھی یہ بتا رہے تھے کہ شاید 9 مئی اب تاریخ کا حصہ ہے جو کبھی ریورس نہیں ہوگی۔
عمران خان کی پیشی کے لیے کمرہ مختص ہونے میں غیرمعمولی تاخیر
سابق وزیراعظم عمران خان نے بائیو میٹرک کروایا تو رینجرز اہلکار انہیں کورٹ روم نمبر 2 لے گئے جہاں وہ تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھے رہے اور ان کے وکلا کبھی رجسٹرار تو کبھی چیف جسٹس کے چیمبر کے چکر لگاتے تاکہ پتا لگایا جاسکے کہ سماعت کس کمرے میں ہوگی۔ یہ تو طے ہوچکا تھا کہ سماعت کون سا 2 رکنی بینچ کرے گا لیکن سماعت کہاں ہوگی یہ کسی کو بھی معلوم نہیں تھا۔ اس معاملے کو طے ہونے میں ڈیڑھ گھنٹے سے زائد وقت صرف ہوگیا۔
سماعت شروع ہونے سے قبل عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کو بھی رینجرز اہلکاروں نے روکا تو وہ بائیکاٹ کر کے چلے گئے جب کہ وہاں صحافیوں کے داخلے پر بھی پابندی تھی۔
سماعت کا آغاز ہوا تو کمرہ عدالت میں موجود وکلا نے نعرے لگائے جس پر ججز نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے سماعت جمعے کی نماز کے بعد تک ملتوی کر دی۔
عمران خان اور مطیع اللہ جان کا دلچسپ مکالمہ
اس وقفے کے دوران ان صحافیوں کو جو روزانہ کی بنیاد پر کیسز کور کرتے ہیں ‘سفارش’ کے بعد اندر جانے کی اجازت مل ہی گئی۔ کمرہ عدالت پہنچنے پر معلوم ہوا کہ رینجرز کے باوردی اہلکار عدالت میں موجود تھے جب کہ عدالت میں کالا کوٹ پتلون پہنے کچھ ایسے وکلا بھی موجود تھے جنہیں اسلام آباد ہائی کورٹ روزانہ کی بنیاد پر آنے والے وکلا بھی نہیں پہچان پا رہے تھے۔
عمران خان عدالت میں کرسی پر براجمان تھے اور وکلا اور صحافیوں نے ان کو گھیرے میں لیا ہوا تھا اور وہ بڑی خندہ پیشانی سے وکلا سے ملتے ہوئے ان کے ساتھ سیلفیاں بھی بنوا رہے تھے۔
عدالت میں غیر ملکی میڈیا کے نمائندگان بھی بڑی تعداد میں موجود تھے جو عمران خان کے انٹرویو کے لیے درخواست کرتے اور سابق وزیراعظم وقفے وقفے سے سب سے مختصر بات کرتے۔
اسی دوران صحافی مطیع اللہ جان نے عمران خان کے سامنے سے گزرتے ہوئے کوئی لقمہ دیا تو انہوں نے غیر ملکی میڈیا کے ایک صحافی سے اپنی گفتگو روکتے ہوئے مطیع اللہ جان سے کہا کہ ‘تم میری حکومت میں میرے خلاف تھے کیوں کہ تمہیں اٹھوایا گیا تھا اور اب جب میں ان کے خلاف ہوں تو تم ان کے ساتھ مل گئے ہو‘۔
مطیع اللہ جان نے کہا کہ ‘جب آپ پورا سچ بولیں گے تب میں آپ کا ساتھ دوں گا، عمران خان نے فورا کہا کیا پوری بات؟ پوچھو کیا پوچھنا ہے، میں تو اب بھی کہتا ہوں یہ سب کچھ ایک ہی شخص کر رہا ہے اور وہ ہے آرمی چیف۔
سماعت کا آغاز ابھی ہونا ہی تھا تو عدالتی عملے نے درخواست کی کہ عدالت کے ڈیکورم کا خیال رکھا جائے۔ اس پر سابق وزیراعظم عمران خان اپنی کرسی سے کھڑے ہوئے اور اپنے پیچھے بیٹھے وکلا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ‘کوئی نعرے بازی نہیں ہوگی، ہمیں عدالت کے ڈیکورم کا خیال رکھنا ہے پہلے بھی ایک شخص کی وجہ سے ججز ناراض ہوئے جو ایک پلانٹڈ شخص تھا‘۔ اس پر روسٹرم پر پہلے سے موجود ایڈوکیٹ جنرل جہانگیر جدون نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ‘وہ آپ کا ہی بندہ تھا اور آپ کہہ رہے ہیں کہ اسے ہم نے پلانٹ کیا تھا؟’
اس پر عمران خان کے وکلا کی جانب سے بھی جوابی وار شروع ہوگئے اور کمرہ عدالت کا ماحول تلخ ہوگیا، اس دوران عدالت میں موجود جہانگیر جدون کے بیٹے بھی جذباتی ہوگئے اور مخالف وکلا کی ٹیم کے رکن کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔
عمران خان کے قریب بیٹھے فیصل چوہدری نے آواز لگائی کہ جہانگیر جدون صاحب آپ کو نہیں کہا، وکلا آپس میں نہ لڑیں۔
معاملہ جب زیادہ طول پکرنے لگا تو عمران خان اپنی کرسی سے اٹھے اور بولے جدون صاحب ! ‘آئی اپولوجائیز’ میں نے آپ کو نہیں کہا تھا۔
عمران خان نے اپنی کرسی پر بیٹھنے کے بعد جہانگیر جدون کے بیٹے کو بلایا ہاتھ ملایا اور انہیں تھپکی دیتے ہوئے کہا کہ میں نے تمہارے والد کو نہیں کہا تھا۔
ججز کے آنے سے کچھ دیر قبل عمران خان کے مرکزی وکیل خواجہ حارث کمرہ عدالت میں پہنچے تو عمران خان نے کرسی سے اٹھ کر انہیں اپنے پاس بٹھایا اور ان سے مشاورت شروع کر دی۔